Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’کھانا بھلے اچھا نہ ہو، ڈیکور بہتر ہونا چاہیے‘

پاکستانی جوڑے نے اسلام آباد کے بجائے گلگت بلتستان کے پہاڑوں میں شادی کا اہتمام کیا فوٹو امریکی سفارتخانہ اسلام آباد
وقت کی تیز رفتاری کے ساتھ انسان اپنی زندگی میں بھی کچھ ایسی تبدیلیاں لا رہا ہے جس سے وہ اس تیز رفتار وقت کے ساتھ خود کو ڈھال سکے۔ دنیا میں ترقی کے منازل طے کرنے کے ساتھ ساتھ انسانی معاشرے میں ترجیحات اور رسم و رواج میں بھی تبدیلیاں دیکھنے کو مل رہی ہیں۔
ڈیجیٹل دور میں انسان کو جہاں وقت کی کمی کا سامنا ہے وہیں اس نے اپنی ضروریات اور ترجیحات کو بھی اس کم وقت کو مد نظر رکھتے ہوئے تبدیل کر لیا ہے۔ ایسا ہی کچھ پاکستان میں اب شادیوں کے رسم و رواج اور تقاریب میں بھی تبدیلیوں کی صورت میں دیکھنے کو مل رہا ہے۔
اس سلسلے میں اردو نیوز نے ملک کے بڑے شہروں میں شادی کی تقاریب کا انتظام کرنے والے کاروبار سے منسلک افراد سے بات کی اور جاننے کی کوشش کی ہے کہ وقت کی تبدیلی کے ساتھ اب شادی بیاہ کے رسم و رواج میں کس حد تک تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔
لاہور میں شادی ہال اور ایونٹ مینجمنٹ کے کاروبار سے منسلک شوکت خان نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پہلے آؤٹ ڈور ایونٹس زیادہ ہوا کرتے تھے اب زیادہ تر تقاریب شادی ہالز میں ہونے لگ گئی ہیں، جس کی وجہ عوام کی قوت خرید متاثر ہونا بھی بتائی جا رہی ہے۔
’شادی ہالز میں بجٹ کے مطابق تقاریب کا انتظام ہو جاتا ہے۔ اس کے علاوہ کچھ لوگ شادیوں کی تقریب فارم ہاؤسز میں بھی کرتے ہیں اور یہ تقاریب اکثر 3-4 روز تک جاری رہتی ہیں۔‘

وقت کے ساتھ شادی کی تقاریب اور رسم و رواج میں بھی تبدیلی آ رہی ہے فوٹو سوشل میڈیا

شادی ہالز کے کاروبار میں اضافہ 

شوکت خان کے مطابق پچھلے سال دسمبر میں انہوں نے 70 مختلف ایونٹس کیے تھے، لیکن اس پورے سال میں صرف 45 تقاریب آرگنائز کر سکیں ہیں۔ 
انہوں نے بتایا کہ 2018 میں  تقریباً 500 تقاریب کا انتظام کیا تھا جو کہ شادی ہالز، مارکیز اور آؤٹ ڈور منعقد ہوئی تھیں، لیکن اس سال ان کی تعداد کم ہو کر تین سو سے ساڑھے تین سو تک رہ گئی ہے۔  ان کے مطابق اس کمی کی وجہ شہر میں مارکیز اور شادی ہالز کی تعداد میں اضافہ ہے۔
شوکت خان کے مطابق بڑے شہروں کے علاوہ اب چھوٹے شہروں میں بھی مارکیز کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ ’مثال کے طور پر ڈیرہ اسماعیل خان میں پچھلے سال 8 شادی ہالز اور مارکیز تھیں جو کہ اس سال 20 سے بھی تجاوز کر گئی ہیں۔ شادیاں تو پچھلے سال سے اس سال زیادہ ہوئی ہیں۔
شوکت خان کہتے ہیں جہاں شادی کی تقریبات میں تبیدلیاں دیکھنے میں آئیں ہیں ان میں ایک تبدیلی یہ بھی ہے کہ اب لوگ مہمانوں کی فہرست کو محدود رکھتے ہیں۔
’پہلے اگر 500 بندوں کو مدعو کیا جاتا تھا تو اب 300 افراد کو شادی کی دعوت دی جاتی ہے۔‘
پاکستان کے سب سے بڑے شہر اور کاروباری مرکز کراچی میں دسمبر کا مہینہ شادیوں کا سیزن کہلاتا ہے۔ شادی ہال مالکان کے مطابق اس سیزن میں کوئی ایک دن ایسا نہیں ہوتا جس دن کوئی فنکشن نہ ہو، اور دسمبر کے اختتام میں ہونے والے ایونٹس کی بکنگ سال پہلے یا اس سے بھی قبل ہو جاتی ہے۔

آؤٹ ڈور کے بجائے شادی ہالز میں تقریب کے اہتمام کا رواج زیادہ سے زیادہ ہوتا جا رہا ہے فوٹو سوشل میڈیا

شادی ہال ارینجمنٹ اور مینیجمینٹ سے منسلک افراد کا کہنا ہے کہ ’دسمبر میں موسم سب سے موافق ہوتا ہے، سکولوں کی بھی چھٹیاں ہو جاتی ہیں اور دنیا بھر میں بھی کرسمس اور سردی کی چھٹیوں کی وجہ سے باہر ممالک میں رہائش پذیر پاکستانی بھی انہی دنوں ملک کا چکر لگاتے ہیں، انہی سب وجوہات کی بنا پر دسمبر شادیوں کا سیزن بن گیا ہے۔
کراچی کے مشہور ایونٹ پلینر مبارک کیٹریرز کے مینیجر نیاز نے اردو نیوز کو بتایا کے باقی تمام ماہ میں ان کے پاس دن میں ایک یا دو مقامات پر ہی ایونٹس ہوتے ہیں، اسی لیے ان دنوں میں وہ ڈسکاؤنٹ دیتے ہیں لیکن دسمبر میں ان کے پاس وسائل کم اور آرڈر زیادہ ہونے کی وجہ سے سروسز کے ریٹ بھی بڑھ جاتے ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ہر آنے والے سال میں شادی کی تقریبات میں اضافہ ہی ہوتا ہے، چاہے جتنی بھی مہنگائی ہو جائے۔ پہلے لوگ گھر کے چھوٹے فنکشن خود ہی کروا لیتے تھے مگر اب گھریلو تقریبات کے لیے بھی ایونٹ پلینرز سے رجوع کیا جاتا ہے جس وجہ سے ان کے کام میں اضافہ ہوا ہے۔ نیاز کا کہنا تھا کہ آج کل شادیوں میں روایتی بارات اور ولیمہ کی تقریبات کے علاوہ بھی فنکشن رکھے جاتے ہیں، اور یہ رجحان کافی نیا ہے۔

کھانا بھلے اچھا نہ ہو، ڈیکور صحیح ہونا چاہیے

اسلام آباد میں پچھلے دس سال سے ایونٹ مینجمنٹ کے کاروبار سے منسلک حسن رضا نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ پہلے سب کچھ سادگی سے ہوتا تھا لیکن اب چیزیں بدل گئی ہیں۔

شادی کے مینیو سے زیادہ ڈیکور پر دیہان دیا جاتا ہے فوٹو سوشل میڈیا

’راولپنڈی اسلام آباد میں میں خاص طور پر ڈیکور پر زیادہ دیہان دیا جاتا ہے۔ دیہاتوں میں یا چھوٹے شہروں میں اب بھی کھانے پر زیادہ توجیح دی جاتی ہے۔ لیکن یہاں اسلام آباد اور پنڈی میں لوگ کہتے ہیں کھانا بھلے اچھا نہ ہو ڈیکور صحیح ہونا چاہیے۔
حسن رضا نے بتایا کہ دو سال پہلے ترجیحات مختلف تھیں۔ پہلے ہال دیکھ لیا جاتا تھا، مہمانوں کی گنجائش دیکھی جاتی تھی اور بہت ہوا تو کھانا ٹیسٹ کر لیا جاتا تھا لیکن اب لوگوں کی ترجیحات بدل گئی ہیں۔ ’اب تو لوگ کرسیوں کے کور کا رنگ تک پوچھتے ہیں، سٹیج کیسا ہوگا، زیادہ توجہ ڈیکور پر دی جاتی ہے۔ پہلے بوفے سسٹم ہوتا تھا اب وہ بھی تبدیل ہوگیا ہے اب اس کی جگہ پلیٹر آگیا ہے۔
لاہور میں ایونٹ میجنمنٹ کے کاروبار سے منسلک شوکت خان کہتے ہیں کہ ’لاہور میں اندرون شہر زیادہ تر لوگوں کی ترجیح اب بھی کھانے پر ہوتی ہے، وہ چاہتے ہیں کہ کھانا بہتر ہونا چاہیے۔ باقی چیزوں پر اتنی توجہ نہیں دی جاتی لیکن اندرون لاہور سے باہر ڈیکوریشن اور لائیٹنگ وغیرہ پر زیادہ توجہ ہوتی ہے۔‘

اب شادی کا پرومو بھی شوٹ کیا جاتا ہے

حسن رضا بتاتے ہیں کہ ’ایچ ڈی ویڈیو اب بالکل استعمال نہیں کی جاتی۔ بہت کم لوگ ایچ ڈی استعمال کرتے ہیں۔ اب ڈی ایس ایل آر کا استعمال زیادہ ہو گیا ہے، ڈرون کیمرے استعمال کیے جاتے ہیں، میشن (کرین ) کا استعمال اب شادیوں میں بھی ہوتا ہے۔‘

شادی کے تمام ایونٹس کی پروفیشنل فوٹوگرافی کا رواج بھی بہت زیادہ ہو گیا ہے فوٹو سوشل میڈیا

انہوں نے بتایا کہ اب ایک سے ڈیڑھ گھنٹے کی ویڈیو میں تمام ایونٹس شامل کر لیے جاتے ہیں۔ ’اب تو بیس بچیس منٹ کی ڈاکومنٹری بنوا لیتے ہیں، جیسے کسی فلم یا ڈرامے کا پرومو ہوتا ہے اس طرح اب پانچ منٹ کا شادی کا پرومو بھی شوٹ ہوتا ہے جو کہ اکثر ڈرون کیمروں کے زریعے شوٹ کیے جاتے ہیں۔‘ انہوں نے مزید کہا کہ  فوٹو شوٹ اب مارکیز میں نہیں ہوتا، مارکیز میں صرف فیملی کے ساتھ تصاویز بنا لیتے ہیں باقی فوٹو شوٹ کے لیے کوئی جگہ سیلیکٹ کر لی جاتی ہے سارا فوٹو شوٹ وہیں ہوتا ہے۔
کراچی میں ایونٹ فوٹوگرافر صدف زہرا نے اردو نیوز کو بتایا  کہ اب سوشل میڈیا کی وجہ سے لوگوں کو ہر موقع کی تصاویر چاہیے ہوتی ہیں، سو لوگ گھریلو تقریبات میں بھی فوٹوگرافر کو بلاتے ہیں۔ پہلے صرف تین بڑے فنکشن ہوا کرتے تھے، مہندی بارات اور ولیمہ، مگر اب برائڈل شاور بھی ہوتا ہے، اور 'پری ویڈنگ پوسٹ ویڈنگ' پارٹیاں بھی، جس کے لیے بھی انہیں بُک کیا جاتا ہے لہٰذا ان کا کام خاصا بڑھ گیا ہے۔
اب سوشل میڈیا کے لیے مخصوص شوٹ کروائے جاتے ہیں جن کے لیے نہ صرف دولہا دلہن بلکہ قریبی رشتے دار بھی دیگر مہمانوں سے پہلے آتے ہیں تاکہ سکون سے تصویریں کھنچوا سکیں۔

شیئر: