Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’فورس رانا ثنا اللہ کی سرگرمیوں کا پتہ نہیں لگانا چاہتی تھی‘

عدالت نے دس، دس لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکوں کے عوض رانا ثنا اللہ کی رہائی کا حکم دیا تھا۔ فائل فوٹو
پاکستان کے صوبہ پنجاب کی ہائی کورٹ نے مسلم لیگ ن کے رہنما رانا ثناء اللہ کو منشیات سمگلنگ مقدمے میں ضمانت دینے کا تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا ہے۔
واضح رہے کہ منگل کو لاہور ہائی کورٹ نے رانا ثنا اللہ کی درخواست ضمانت منظور کرتے ہوئے 10، 10 لاکھ روپے کے 2 مچلکوں کے عوض ان کی رہائی کا حکم دیا تھا۔
جمعرات کو جاری کیے گئے تفصیلی فیصلے میں عدالت نے یہ نقطہ اٹھایا ہے کہ اتنی بھاری ریکوری کرنے کے بعد ملزم اور اس کے مبینہ گینگ کے بارے میں تحقیقات کا آغاز نہ کرنا، اور عدالت سے استدعا کرنا کہ ملزم سے تفتیش کیے بغیر ہی جیل بھیج دیا جائے، معاملے کی شفافیت پر شکوک و شبہات پیدا کرتا ہے۔
لاہور ہائی کورٹ کے 9 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلے میں عدالت نے اے این ایف کے پراسیکیوٹر کا ’ضمانت کی درخواست کے قابل سماعت‘ ہونے پر اعتراض مسترد کرتے ہوئے کہا کہ رانا ثناء اللہ کی لاہور ہائی کورٹ میں پہلی درخواست ضمانت مسترد نہیں ہوئی تھی، بلکہ واپس لی گئی تھی۔ کسی بھی فرد کو درخواست واپس لیے جانے کے بعد نئی درخواست ضمانت دائر کرنے پر قدغن نہیں ہے۔
فیصلے میں لکھا ہے کہ یہ تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ راوی ٹول پلازہ پر رانا ثناء اللہ کو روکا گیا اور ان کی گرفتاری کے دوران موقع پر ان سے ہیروئین کی برآمدگی پر میمو نہیں بنایا گیا۔ ’عجیب توجیح پیش کی گئی کہ موقع پر لوگوں کے اکٹھے ہونے کی وجہ سے دستاویزی کارروائی نہیں کی جا سکی۔‘
عدالت نے سوال اٹھایا کہ ایسا کم ہی ہوتا ہے کہ اے این ایف کے 20 سے زائد اہلکاروں کے ہوتے ہوئے موقع پر یہ عمل مکمل نہ کیا جا سکتا ہو۔

رانا ثناءاللہ کے وکلا  کے مطابق منشیات کیس ان کی حکومت پر تنقید کی وجہ سے بنایا گیا۔ فوٹو سوشل میڈیا

عموماً منشیات کے مقدمات میں شفافیت کے لیے جائے وقوع پر تمام قانونی کارروائی مکمل کی جاتی ہے۔
عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ایف آئی آر کے مطابق رانا ثناء اللہ فیصل آباد اور لاہور میں منشیات کا نیٹ ورک چلا رہے تھے۔
’رانا ثناء اللہ کی گرفتاری کے بعد جسمانی ریمانڈ کے بجائے جوڈیشل ریمانڈ مانگنے سے لگتا ہے کہ اے این ایف رانا ثناءاللہ کی سرگرمیوں کا پتہ نہیں لگانا چاہتی تھی۔‘
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ اے این ایف جسمانی ریمانڈ نہ مانگنے کی وجہ خود ہی بہتر جانتی ہے۔
رانا ثناءاللہ کے وکلاء کہتے ہیں کہ یہ کیس ان کی حکومت پر تنقید کی وجہ سے بنایا گیا۔
وکلاء کے مطابق قانون کےتحت الزام کی سنگینی کی بنیاد پر ضمانت خارج نہیں کی جا سکتی۔
تفصیلی فیصلے کے مطابق اگر استغاثہ کا کیس مشکوک ہو تو فائدہ ملزم کو ہوتا ہے۔ یہ تمام پہلو مزید تحقیقات کے متقاضی ہیں۔ اس لیے ضمانت منظور کی جاتی ہے۔

شیئر: