Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عمار مسعود کا کالم، اپنی ٹیم کے خلاف گول

پاکستان پیپلز پارٹی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کو بھی نیب دو بار تفتیش کے لیے بلا چکا ہے۔ فوٹو: اے ایف پی
نیا نیب آرڈیننس حکومت کے لیے ایسے ہے جیسے کوئی فٹ بال کا کھلاڑی اپنی ہی ٹیم کے خلاف گول کر دے۔
عمران خان نے گذشتہ کئی برسوں سے کرپشن کے خلاف ایک بیانیہ اپنایا ہوا ہے۔ موقع کوئی بھی ہو وہ اس بیانیے پر بات کرنے سے باز نہیں آتے۔ امریکہ میں لوگوں سے خطاب ہو، تاجروں سے میٹنگ ہو، اسمبلی کا اجلاس ہو یا اقوام متحدہ میں کوئی تقریر کا موقع۔ عمران خان اپنی ہٹ پر قائم رہتے ہیں۔ یہ بات سب ہی سمجھدار لوگ کہتے ہیں کہ جس نے کرپشن کی ہے اس کو سزا ضرور ملنی چاہیے۔ لیکن نواز شریف سے لے کر احسن اقبال تک تمام گرفتاریاں سیاسی انتقام کے بیانیے کے زمرے میں آتی ہیں۔ ان لوگوں پر عمران خان اور ان کے وزراء نے بہت الزامات لگائے۔ نوبت یہاں تک آ گئی کہ احسن اقبال پر جس منصوبے میں کرپشن کا الزام ہے اس کی مالیت ڈھائی ارب ہے اور کرپشن کا الزام چھ ارب روپے کا ہے۔

 

نیب قطعی طور پر ایک آزاد اور خود مختار ادارے کے طور پر کام کرنے کا تاثر قائم کرنے میں ناکام رہا ہے۔ حکومت کے وزراء میڈیا کو گرفتاری سے ایک ہفتہ پہلے ہی نوید سنا دیتے تھے کہ اب یہ سیاسی رہنما گرفتار ہونے لگا ہے۔ اس طرز عمل سے نیب کی شفافیت پر گہری زک لگی۔ کرپشن کرپشن کے اس کھیل میں سب سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ جتنے بھی سیاسی رہنماؤں کو آج تک گرفتار کیا گیا ہے ان سے تادم تحریر ایک پائی بھی وصول نہیں ہو سکی۔
ہر تجزیہ کار یہ بات کرتا تھا کہ پی ٹی آئی کے اپنے بہت سے وزراء ہیں جن کے نیب میں کیسز کھلے ہوئے ہیں تو نیب ان کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کرتا۔ ان میں بہت سے کیسسز ایسے تھے جن میں زیادہ شواہد کی ضرورت نہیں تھی مگر نیب ان پر چپ سادھے رہا۔ پی ٹی آئی کے کارکنوں کو توقع تھی کہ معروف نعرے کے مطابق احتساب سب کا ہو گا۔ سزا سب کو ملے گی۔ پھر یہ ملک ترقی کرے گا وغیرہ وغیرہ۔

حزب اختلاف کی جماعت مسلم لیگ ن کے کئی رہنما نیب نے تفیتش کے لیے حراست میں لیے۔ فوٹو: اے ایف پی

گذشتہ چند مہینوں  سے سیاسی فضا بدل رہی ہے۔ نیب کے چیئر مین نے بارہا کہا ہے کہ حکومتی وزراء کے خلاف بے شمار کیسز ہیں مگر وقت آنے پر انہیں بھی کھولا جائے گا۔ چیئرمین نیب نے حال ہی میں ایک اور بیان داغ دیا کہ اب ہواؤں کا رخ بدل رہا ہے۔ ادھر سیاسی طور پر بھی حکومت کے حلیف آنکھیں دکھانے لگے تھے۔ ایم کیو ایم اور مسلم لیگ ق کا موڈ اور بیانات بدل رہے تھے۔ عدلیہ کے فیصلوں سے بھی حکومت وقت زیادہ خوش نہیں لگتی۔ عوام میں بھی معشیت کی ابتری اور بڑھتی ہوئی مہنگائی کے سبب غم و غصہ پایا جا رہا تھا۔ ایسے میں لوگ توقع کر رہے تھے کہ اب نیب کے کیس حکومتی شخصیات پر کھلیں گے۔
اس صورت حال میں عمران خان نے ایک اور بڑا یو ٹرن لے کر نیب آرڈیننس متعارف کرا دیا ہے اور نیب کی ساری طاقت ختم کر دی۔ اب نیب نہ بی آر ٹی کی طرف نظر کر سکتا ہے نہ مالم جبہ والے کیس پر ہاتھ ڈال سکتا ہے۔ نہ بنی گالہ کی طرف نگاہ کر سکتا ہے اور نہ ہیلی کاپٹر کیس میں کچھ کہہ سکتا ہے۔ اب گرفتاری کی صورت میں ریمانڈ کی مدت بھی کم ہوگئی ہے۔ اب کسی پراجیکٹ میں بدعنوانی، بدعنوانی نہیں کہی جائے گی بلکہ اسے صرف نظر کر کے بد انتظامی کا نام دیا جائے گا اور بیورو کریٹس پر ہاتھ نہیں ڈالا جا سکے گا۔ ٹیکس کے کیسز متعلقہ اداروں کے حوالے کیے جائیں گے۔ بزنس مین کی خصوصی پروٹیکشن کی جائے گی۔

عمران خان نے گذشتہ کئی برسوں سے کرپشن کے خلاف ایک بیانیہ اپنایا ہوا ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

اس ضمن میں یہ بات اہم ہے کہ نیب قانون کے تحت عدلیہ کے کسی معزز رکن پر ہاتھ نہیں ڈال سکتی۔ افواج پاکستان کے افسران کا احتساب بھی اس کے دائرہ کار میں نہیں آتا۔ اب موجودہ آڑڈینینس کی بدولت بیوروکریٹس بھی بچ گئے ہیں۔ بزنس مین کی بھی نیب سے جان خلاصی ہو گئی ہے۔ ایسے میں نیب صرف سیاستدانوں کا احتساب کرے گا؟
حکومت اور اس کے وزرا کے ساتھ کیا ہوتا ہے یہ الگ کہانی ہے مگر سب سے بڑا ظلم پی ٹی آئی کے ان مخلص کارکنوں کے ساتھ ہوا ہے جو بیچارے یہ سمجھتے تھے کہ واقعی احتساب ہو رہا ہے۔ ان کے ساتھ اس نئے آرڈیننس کے بعد ایسا ہوا ہے جیسے کوئی فٹ بال کا کھلاڑی اچانک اپنی ہی ٹیم کے خلاف گول کر دے۔

شیئر: