Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’ٹک ٹاک گرل کے ساتھ ویڈیو والے اسلامی فیصلے کریں گے؟‘

حافظ حمداللہ کا کہنا تھا کہ فواد چوہدری کو اسلامی نظریاتی کونسل اس لیے ناکارہ لگتی ہے کیونکہ اس میں حریم شاہ شامل نہیں (فوٹو:سوشل میڈیا)
جمیعت علمائے اسلام ف کے رہنما اور سابق سینیٹر حافظ حمد اللہ نے وفاقی وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی فواد چوہدری پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر اسلامی نظریاتی کونسل رہنمائی نہیں کرے گی تو کیا وہ لوگ جن کی وجہ شہرت ایک ٹک ٹاک گرل ہو، قرآن و سنّت کی روشنی میں فیصلے کریں گے؟
وفاقی وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے نیب آرڈیننس کی بعض شقوں کو غیرشرعی کہنے پر اسلامی نظریانی کونسل کی اہلیت پر سوال اٹھایا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ ایسے ادارے پر کروڑوں روپے خرچ کرنا سمجھ سے باہر ہے جس سے مذہبی طبقات کی سوچ کو کوئی مدد نہ ملی ہو۔
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے جے یو آئی ف کے رہنما حافظ حمد اللہ نے کہا کہ مدینے کی ریاست کے علمبرداروں کی ٹک ٹاک گرل کے ساتھ ویڈیوز منظر عام پر آئیں، اگر یہ واقعی مدینے کی ریاست ہوتی تو اب تک تمام وزرا کی چھٹی ہوچکی ہوتی۔‘ 
انہوں نے کہا کہ ’اسلامی نظریاتی کونسل میں جید علما کرام اور قانونی ماہرین شامل ہیں لیکن فواد چوہدری کو اسلامی نظریاتی کونسل اس لیے ناکارہ لگتی ہے کیونکہ اس میں حریم شاہ شامل نہیں۔‘
حافظ حمداللہ نے مزید کہا کہ ’اسلامی نظریاتی کونسل پر تنقید کرنے سے پہلے فواد چوہدری یہ بتائیں کہ سینیما اور ٹک ٹاک کو پروموٹ کرنے کے علاوہ بطور وزیر سائنس اینڈ ٹینکانوجی انہوں نے کیا کیا؟
ان کا کہنا تھا کہ آئین میں واضح طور پر لکھا ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل قانون سازی میں پارلیمنٹ اور حکومت کی رہنمائی کرے گی، فواد چوہدری پہلے آئین پڑھیں پھر آئینی ادارے پر سوال اٹھائیں۔
اسلامی نظریاتی کونسل نے قومی احتساب بیورو کی تین شقوں کو غیر شرعی غیر اسلامی اور آئین سے متصادم قرار دیا ہے۔
حافظ حمداللہ نے اس حوالے سے بتایا کہ نیب آرڈیننس میں بے اپنی گناہی ثابت کرنا ملزم کی ذمے داری ہے جبکہ اسلام میں یہ ذمے داری الزام لگانے والے پرعائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے الزام کے لیے شواہد پیش کرے۔ اس کے علاوہ کرپشن کرنے والوں کو پلی بارگین کرکے چھوڑدینا بھی اسلامی قوانین کے منافی ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اسلامی نظریاتی کونسل کا مقصد ہی حکومت اور پارلیمنٹ کی قانون سازی مین رہنمائی کرنا ہے، اس لیے ضروری ہے کہ جو سفارشات کونسل دے اسے قانون کا حصہ بنانا چاہیے۔

شیئر: