Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

انڈونیشیا سے لائے گئے ملزم کا ’پولیس حراست میں قتل‘

لقمان بٹ کو گذشتہ ہفتے انٹرپول کے ذریعے انڈونیشیا سے پاکستان لایا گیا تھا۔ فوٹو: ٹریبن ویب
انٹرپول کے ذریعے انڈونیشیا سے پاکستان کے صوبہ پنجاب کے شہر ڈسکہ میں لائے جانے والے مفرور ملزم محمد لقمان بٹ کو پولیس حراست میں قتل کر دیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ انڈونیشیا کے شمالی سماترا کے ضلع آسہان میں رہنے والے لقمان بٹ کو گذشتہ ہفتے وطن واپس لایا گیا تھا۔
لقمان بٹ پر دو قتل کرنے کا بھی الزام ہے اور حکام نے ان کے سر کی قیمت دو لاکھ روپے مقرر کر رکھی تھی۔

 

عرب نیوز کے مطابق اتوار کو اس واقعے کی تفصیل بتاتے ہوئے پولیس کا کہنا تھا کہ لقمان بٹ کو ان کے مخالفین نے قتل کیا ہے۔
سب انسپکٹر محمد اصغر نے کہا کہ ’محمد لقمان کو گذشتہ رات نو بجے کے قریب ہتھیاروں کی برآمدگی کے لیے ڈسکہ روڈ لے جایا جا رہا تھا کہ ان کے مخالف ماسٹر اعجاز رسول نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر قتل کر دیا۔‘
پولیس نے لقمان بٹ کے مخالف ماسٹر اعجاز کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کر لیا ہے۔
اردو نیوز کو دستیاب ایف آئی آر کے مطابق پولیس کا دعویٰ ہے کہ ’لقمان بٹ کو سنیچر کی رات ماسٹر اعجاز رسول نے ڈسکہ روڈ پر ہتھیاروں کی برآمدگی کے لیے لے جاتے ہوئے قتل کیا۔‘
عرب نیوز پاکستان کے مطابق 34 سالہ محمد لقمان بٹ، جن کو حسین شاہ یا ایم فرمان کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، کو انڈونیشیا کی پولیس نے گزشتہ ہفتے منگل کو گرفتار کیا اور جمعرات کو پاکستان واپس بھیج دیا تھا۔
انڈونیشیا کے نیشنل سینٹرل بیورو آف انٹرپول کے سیکرٹری بریگیڈیئر جنرل نیپولین پوناپارٹ نے عرب نیوز کو بتایا تھا کہ محمد لقمان کو گرفتار کر کے میڈن سے جکارتہ لے جایا گیا جہاں اسے پاکستانی سفارت خانے کے افسران کی موجودگی میں پاکستانی پولیس کے حوالے کیا گیا تھا۔

عرب نیوز کے نمائندے اسمیرا لتفیا اور نعمت خان سے بات کرتے ہوئے نیپولین بوناپارٹ نے کہا تھا کہ ’ہمیں انٹرپول سے ریڈ نوٹس ملا تھا کہ وہ (محمد لقمان) مطلوب افراد کی فہرست میں تھا۔ ہم نے پتا لگایا کہ وہ شمالی سماترا میں ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا تھا کہ ’پاکستانی پولیس نے ہم سے رابطہ کیا اور ہم نے سماترا میں اپنے ساتھیوں کی مدد سے اسے منگل کو گرفتار کرلیا۔‘
تاہم نیپولین بوناپارٹ نے محمد لقمان کے جرم کی تفصیلات دینے سے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ پاکستانی مفرور کی مزید تحقیقات کرنا انڈونیشیا کی پولیس کے دائرہ اختیار میں نہیں۔
پاکستان میں پولیس ذرائع کے مطابق پنجاب کے شہر گجرانوالہ میں محمد لقمان کے خلاف تین مختلف تھانوں میں پانچ مقدمات درج ہیں۔
نپولین بونا پارٹ کا کہنا تھا کہ ’انٹرپول کے رکن ہونے کی حیثیت سے ہمیں جو کرنا چاہیے تھا ہم نے کیا۔ ہم نے مفرور کو ڈھونڈا، اس کا پتا لگایا اور اسے اس کے وطن کے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے حوالے کیا۔‘

انہوں نے امید ظاہر کی کہ کسی انڈونیشیائی مفرور کے پاکستان میں پائے جانے کی صورت میں ان کے پاکستانی ہم منصب ایسے ہی تعاون کی پیش کش کریں گے۔
انڈونیشیا کی پولیس کے ترجمان بریگیڈیئر جنرل آرگو یوونو نے عرب نیوز کو بتایا کہ’ محمد لقمان آسہان میں اپنی 33 سالی انڈونیشیائی اہلیہ ایوی لیلی میداٹی کے ساتھ رہ رہے تھے۔‘
مفرور اور اس کے اہلیہ کو میڈن میں شمالی سماترا پولیس کے ہیڈکوارٹرز میں زیر حراست رکھا گیا تھا، جہاں محمد لقمان نے پاکستان میں ایک خاندان کے افراد کے قتل کا اعتراف کیا۔
’وہ انڈونیشیا میں گذشہ دو سال سے رہ رہا تھا اور آسہان میں اپنی اہلیہ کے ساتھ گذشتہ پانچ  ماہ سے رہائش پذیر تھا، دونوں نے ایک سال قبل ہی میڈن میں شادی کی تھی۔‘

محمد لقمان انڈونیشیا میں ملائیشیا کے رستے لکڑی کی ایک کشتی کے ذریعے آئے۔ انہوں نے ملک کے مختلف حصوں میں وقت گزارا اور آسہان میں رہنے لگے جہاں وہ ڈرائیور کے طور پر کام کرتے تھے۔
انہوں نے جعلی شناخت کے ذریعے انڈونیشیا کا ڈرائیونگ لائسنس حاصل کیا تھا۔
پولیس نے محمد لقمان کی رہائش سے ان کا انڈونیشیائی شناختی کارڈ بھی برآمد کیا تھا جس پر ان کا نام ایم فرمان اور جائے پیدائش کی جگہ آسہان درج تھا۔ اس کے علاوہ پولیس کو ان کا ڈرائیونگ لائسنس اور شادی کا سرٹیفیکیٹ بھی ملا۔

شیئر: