Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کورونا وائرس: سرحدوں کی بندش، تجارت متاثر

تاجروں کا کہنا ہے کہ ایران اور افغانستان سے سرحد کی بندش سے زیادہ کورونا وائرس کی افواہوں کا کاروبار پر اثر پڑا ہے (فوٹو:اے ایف پی)
پاکستان میں کورونا وائرس کی منتقلی کو روکنے کے پیش نظر ایران اور افغانستان سے بلوچستان داخلے کی سرحد بند ہونے سے جہاں ایک طرف زائرین کو پریشانی کا سامنا ہے وہیں کوئٹہ اور کراچی میں کاروباری سرگرمیوں پر بھی خاصا اثر پڑا ہے جس سے تاجروں کو اربوں روپے کے نقصان کا اندیشہ ہے۔
کوئٹہ چیمبر آف کامرس کے سینیئر نائب صدر بدر الدین کاکڑ نے کورونا کے پاکستانی معیشت پر اثرات کے حوالے سے اردو نیوز کو بتایا کہ ’افغانستان اور ایران کے ساتھ لگنے والی سرحدوں پر ہمارا بہت زیادہ انحصار ہے۔ چمن سرحد سے افغانستان کے ساتھ پاکستان کی تجارت کا حجم سوا ارب ڈالر جبکہ ایران کے ساتھ تجارت کا حجم ایک ارب ڈالر ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ موسمی پھل، سبزیاں، خشک میوہ جات، جراحی آلات، ادویات اور برتنوں سے لے کر سٹیل کے سامان تک تقریباً ہر چیز افغانستان سے برآمد کی جاتی ہے اس لیے بلوچستان ہی نہیں بلکہ پورے پاکستان کی صنعتوں کو مشکلات ہوسکتی ہیں۔‘
بدر الدین کاکڑنے ایران کے ساتھ تجارتی مال کے لین دین کے بارے میں بتایا کہ ’ایران کے ساتھ ہماری تجارت مال کے بدلے مال دے کر ہوتی ہے کیونکہ امریکی پابندیوں کی وجہ سے ایران کے ساتھ بینکنگ کے ذریعے رقوم کی ترسیل ممکن نہیں۔‘
کویٹہ چیمبر کے ناب صدر نے خبردار کیا کہ اگر تجارتی سرگرمیوں کی بحالی کے لیے بروقت اقدامات نہ کیے گئے تو تاجروں کے اربوں روپے ڈوب جائیں گے۔

موسمی پھل، سبزیاں، خشک میوہ جات، جراحی آلات، ادویات، برتن سے لے کر سٹیل کے سامان تک تقریباً ہر چیز افغانستان سے برآمد کی جاتی ہے (فوٹو:اے ایف پی)

ایف پی سی سی آئی کے ترجمان طاہر احمد نے بتایا کہ ’سرحد بند ہونے کا کاروبار پر اثر انداز ہونا لازم امر ہے، چیمبر اپنے سٹیک ہولڈرز سے مشاورت کر رہی ہے تاکہ اس کے حجم کا تخمینہ لگایا جاسکے۔‘
اس حوالے سے جب اردو نیوز نے کراچی کے تاجروں سے بات کی تو ان کا کہنا تھا کہ ایران اور افغانستان سے سرحد کی بندش سے زیادہ کورونا وائرس کی افواہوں کا کاروبار پر اثر پڑا ہے۔
آٹو پارٹس ڈیلر عبدالسلام غوری نے بتایا کہ ’کورونا کی افواہوں اور کراچی کے افراد میں اس مرض کی تصدیق کے بعد لوگوں کی مارکیٹ آمد میں خاطر خواہ کمی آئی ہے۔‘
یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ کاروباری سرگرمیوں میں کمی کی وجہ سے اشیاء کی طلب میں بھی کمی آئی ہے جس کی وجہ سے ابھی تک کسی چیز کی قلت دیکھنے میں نہیں آرہی۔
’اگر عام حالات ہوتے تو اب تک مال کی شارٹیج ہو چکی ہوتی تاہم چونکہ مارکیٹ میں گاہک ہی نہیں لہٰذا بارڈر بند ہونے کے بعد بھی دکانوں میں سامان موجود ہے۔
کورونا وائرس کے سبب صرف پاک ایران سرحد بند نہیں ہوئی بلکہ چین سے آئے کنٹینرز کو بھی کلیئر نہیں کیا جا رہا۔ بولٹن مارکیٹ کے تاجر رزاق میمن نے اردو نیوز کو بتایا کہ ان سمیت کافی تاجروں کے کنٹینرز پورٹ پر پہنچ چکے ہیں لیکن انہیں کھولنے اور کلیئر کرنے کی اجازت نہیں دی جا رہی۔

آٹو پارٹس ڈیلر عبدالسلام غوری کے مطابق ’کراچی میں کورونا کے مرض کی تصدیق کے بعد لوگوں کی مارکیٹ آمد میں خاطر خواہ کمی آئی ہے۔‘ (فوٹو:اے ایف پی)

ایران پر امریکی پابندیوں کی وجہ سے اب زیادہ تر تجارت بینکنگ طریقوں کے بجائے اشیاء کے لین دین سے کی جاتی ہے جیسے کہ پاکستان سے ایران چاول برآمد کیا جاتا ہے جبکہ اس کے بدلے میں پیٹروکیمیکل در آمد کیا جاتا ہے۔
اس کے علاوہ بہت سا سامان (جیسے کہ آٹوپارٹس) ایران سے سمگل ہو کر بھی کوئٹہ اور کراچی آتا ہے جہاں سے ملک کے دیگر شہروں میں بھی بھیجا جاتا ہے۔
دوسری جانب، پاک ایران سرحد بندش کے نتیجے میں پھلوں کی برآمد بھی متاثر ہوئی ہیں جس کے بعد تاجروں نے سمندری راستے کے ذریعے پھلوں اور سبزیوں کی برآمدات شروع کر دی ہیں۔
ملک بھر کے پھلوں اور سبزیوں کے برآمدی تاجروں کی نمائندہ تنظیم کے رکن وحید احمد نے ایک بیان میں کہا ہے کہ پاکستان سے عراق اور قزاقستان کو آلو، کینو اور بیر برآمد کی جاتا ہے۔ سرحد کی بندش سے تاجروں کو روزانہ کہ بنیاد پہ 40 کروڑ روپے کا نقصان ہونے کا اندیشہ تھا جس سے بچنے کے لیئے متبادل تجارتی راستہ اختیار کیا گیا ہے۔
محکمہ کسٹمز کی جانب سے امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اس بندش سے سمگلنگ میں خاطر خواہ کمی آئے گی اور مقامی اشیاء کی مانگ میں اضافہ ہوگا جس سے معاشی سرگرمی بہتر ہوگی۔
محکمے کی طرف سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا کہ پاکستانی مارکیٹ کی 40 فیصد کھپت سمگل شدہ اشیاء سے پوری کی جاتی ہے جس میں آٹو پارٹس، الیکٹرانکس، سٹیل آئٹمس، کاسمیٹکس اشیاء قابلِ ذکر ہیں۔

 بدر الدین کاکڑ نے بتایا کہ موسمی پھل، سبزیاں، خشک میوہ جات،ادویات، برتن سے لے کر سٹیل کے سامان تک تقریباً ہر چیز افغانستان سے برآمد کی جاتی ہے (فوٹو:اے ایف پی)

افغانستان اور ایران کے ساتھ سرحد بند ہونے کی وجہ سے کوئٹہ میں کاروباری سرگرمیاں بھی ماند پڑگئی ہیں۔ کوئٹہ میں افغانستان سے خشک میوہ جات درآمد کرنے والے تاجر روح اللہ ترہ کئی نے اردو نیوز کو بتایا کہ تاجروں نے مارکیٹ آنا چھوڑ دیا ہے اور کوئی خرید وفروخت ہی نہیں ہوئی۔

پاک ایران تجارت کا حجم

کوئٹہ چیمبر آف کامرس کے سینیئر نائب صدر بدر الدین کاکڑ کے مطابق تافتان سرحد پر ایران اور پاکستان سے روزانہ ڈھائی سو، تین سو ٹرک آتے جاتے تھے یہ ساری سرگرمیاں اس وقت بند پڑی ہیں۔
’اس وقت ایک روپیہ ریونیو نہیں آرہا، برآمدات بھی بند ہیں۔ ایرانی حدود میں پاکستانی تاجروں کی خریدی ہوئی اشیاء سے بھرے تقریباً پندرہ سو ٹرک کھڑے ہیں جبکہ پاکستان میں بھی سینکڑوں گاڑیاں کھڑی ہیں جن میں سے کئی گاڑیوں میں تازہ پھل موجود ہیں جن کے خراب ہونے کا خدشہ ہے۔‘
پاکستان کی ایران کے لیے برآمدات میں چاول، کینو، آلو، آم  وغیرہ شامل ہیں جبکہ ایران سے پٹروکیمیکل بیسڈ سامان زیادہ درآمد کیا جاتا ہے۔ دھماکا خیز ہونے کی وجہ سے انہیں زیادہ دیر رکھنے کی صورت میں حادثہ ہونے کے خدشات بھی موجود ہیں۔

بدر الدین کاکڑ نے بتایا کہ ’ایرانی حدود میں پاکستانی تاجروں کی خریدی ہوئی اشیاء سے بھرے تقریباً پندرہ سو ٹرک کھڑے ہیں‘(فوٹو:اے ایف پی)

تاجر رہنماؤں کے بقول ایرانی حکام نے کہا ہے کہ اگر سرحد پر پھنسے ٹرکوں کو سرحد عبور کرنے کی اجازت نہیں دی جارہی تو دوسرے آپشن کے طور پر سامان کو وہی خالی کیا جائے گا۔
انہوں نے بتایا کہ ’اگر سامان وہاں خالی کیا جاتا ہے تو کسی کو پتہ نہیں کہ وہاں پر مال محفوظ ہاتھوں میں بھی ہوگا یا نہیں۔ دس دن سے برآمدات اور محصولات کی وصولی دونوں بند ہیں۔‘
بدر الدین کاکڑ نے بتایا کہ ’افغانستان کے ساتھ طورخم سرحد پر آمدروفت اور تجارت جاری ہے۔ ایسی صورتحال میں یہاں کی مارکیٹ سے سرمایہ کار اپنا سرمایہ وہاں منتقل کرسکتے ہیں۔‘
ایوان صنعت و تجارت کوئٹہ کے رہنماء کے مطابق موجودہ صورتحال کی وجہ سے کوئٹہ کی سبزی منڈی بہت زیادہ متاثر ہورہی ہے۔ پنجاب سے پھل خرید کر ایران لے جانے والے تاجر سرحدی بندش کی وجہ سے اب وہی پھل کوئٹہ میں طلب نہ ہونے کی وجہ سے سستے داموں فروخت کرنے پر مجبور ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ حکومت دور اندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ماہرین کی ٹیم تشکیل دے اور دونوں سرحدوں پر ایسے اقدامات کیے جائیں جس سے انسانی جانوں کا تحفظ بھی ہو اور سامان کی ترسیل بھی جاری رہے۔ 
  • واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ جوائن کریں
 

شیئر: