Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کورونا کا خوف، شہری زائرین کے خلاف ڈنڈے لے کر نکل آئے

شہریوں نے احتجاجی زائرین سے سنٹر میں واپس جانے کا کہا (فوٹو: اردو نیوز)
پاکستان کے سرحدی شہر تافتان میں ایران سے واپسی پر قرنطینہ مرکز میں رکھے گئے زائرین نے خوراک، رہائش اور طبی سہولیات کے فقدان اور گھر واپسی کی اجازت نہ ملنے پر احتجاج کیا ہے۔
سینکڑوں زائرین رکاوٹیں ہٹا کر قرنطینہ مرکز سے باہر نکل آئے اور تافتان کے مرکزی چوک پر مظاہرہ کیا۔ 
انتظامیہ نے مظاہرین سے مذاکرات کیے مگر وہ احتجاج سے اٹھنے پر تیار نہ ہوئے۔ اس دوران زائرین کی تفتان میں کھلے عام گھومنے کے خلاف تافتان کے تاجر اور شہری ڈنڈے لے کر سڑکوں پر نکل آئے جس کے نتیجے میں مقامی شہری، تاجر اور زائرین آمنے سامنے آ گئے۔
دوسری جانب پاکستان نے پاک افغان سرحد چمن کے مقام پر ہر قسم کی آمدورفت کے لیے بند کر دی ہے جس سے سرحد کے دونوں جانب ہزاروں افراد پھنس گئے ہیں۔
ایران میں کورونا وائرس پھیلنے کے بعد 22 فروری سے پاکستان نے ہمسایہ ملک کے ساتھ اپنی سرحد بند کی ہوئی ہے۔ تب سے تجارتی سرگرمیاں معطل ہیں تاہم ایران میں موجود پاکستانی شہریوں کو چاغی کے علاقے تافتان میں سرحدی دروازے سے آنے کی اجازت دی جا رہی ہے۔
ایف آئی اے کے مطابق گذشتہ تین دنوں کے دوران اڑھائی ہزار سے زائد پاکستانی شہری ایران سے تفتان کے راستے واپس آچکے ہیں۔ ان میں تاجر، مزدور، سیاح، طلبہ اور 130 سے زائد قیدی شامل تھے۔ واپس آنے والوں میں دو ہزار سے زائد زائرین تھے جو عراق اور ایران میں مذہبی مقامات کی زیارت کرنے گئے تھے۔
سرحدی اضلاع پر مشتمل رخشان ڈویژن کے کمشنر ایاز مندوخیل کے مطابق ایران میں کورونا وائرس سے متاثرہ شہروں کا دورہ نہ کرنے والے پاکستانی شہریوں کو سرحد پر سکریننگ کرنے کے بعد گھروں کو جانے کی اجازت دی جارہی ہے۔
تاہم چونکہ زائرین وائرس سے سب سے متاثرہ ایرانی شہر قم میں رہ کر واپس آرہے ہیں اس لیے انہیں تافتان کے پاکستان ہاﺅس میں قائم قرنطینہ مرکز میں طبی نگرانی میں رکھا جارہا ہے۔

زائرین کا مطالبہ ہے کہ انہیں گھر واپس جانے دیا جائے (فوٹو: اردو نیوز)

انہوں نے بتایا کہ قرنطینہ مرکز میں 17 سو 30 زائرین موجود ہیں جبکہ پیر کو مزید 100 زائرین یہاں پہنچے ہیں اور منگل کو مزید ایک ہزار زائرین کی آمد متوقع ہے۔
قرنطینہ مرکز میں موجود زائرین نے میڈیکل، خوراک، رہائش کے لیے سہولیات نہ ہونے اور صفائی کی خراب صورتحال کی شکایات کی ہیں۔
پیر کو تین سو سے زائد زائرین رکاوٹیں ہٹا کر قرنطینہ مرکز سے باہر نکل آئے اور ایک کلومیٹر آگے جاکر تفتان کے مرکزی چوک پر دھرنا دیا۔ زائرین نے انتظامیہ اور پراونشل ڈیزاسٹر مینیجمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم اے) کے خلاف نعرے لگائے۔ اتوار کو بھی زائرین نے احتجاج کیا تھا۔
زائرین کا کہنا تھا کہ انہیں خیموں میں بھیڑ بکریوں کی طرح رکھا گیا ہے۔ کمبل اور نہ ہی بستر میسر ہیں۔ کھانے کے لیے بد بودار اور کئی دن پرانے چاول فراہم کیے جارہے ہیں۔ ٹوائلٹس کئی دنوں سے صا ف نہیں کیے گئے۔
ڈیرہ غازی خان سے تعلق رکھنے والے ایک زائر علی اصغر نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’ہم شاید کورونا سے بچ جائیں مگر باسی کھانا کھانے اور گندے ماحول میں رہنے کی وجہ سے ضرور بیمار ہو جائیں گے۔ اس لیے ہمارا مطالبہ ہے کہ ہمیں جلد سے جلد گھروں کو جانے کی اجازت دی جائے۔

مقامی شہریوں کو ڈر ہے کہ تافتان میں کورونا پھیل سکتا ہے (فوٹو: اردو نیوز)

زائرین کا کہنا تھا کہ ’قرنطینہ مرکز میں ہمیں ایک دوسرے کے اتنے قریب رکھا گیا ہے کہ اگر کوئی بھی وائرس سے متاثرہ شخص ہمارے درمیان موجود ہوا تو سب ہی اس کی لپیٹ میں آجائیں گے۔ 48 گھنٹوں بعد بھی ڈاکٹر چیک کرنے نہیں آرہے۔ پی ڈی ایم اے کی جانب سے ماسک اور سہولیات کی فراہمی کے صرف جھوٹے دعوے کیے جا رہے ہیں۔‘
دوسری طرف مقامی شہریوں کا کہنا تھا کہ اگر زائرین یونہی کھلے عام پھرتے رہے تو کورونا وائرس پھیل سکتا ہے اور تافتان کے رہائشی بھی بیمار ہوسکتے ہیں اس لیے زائرین کو قرنطینہ مرکز سے باہر نکلنے نہ دیا جائے۔
مقامی لوگوں اور تاجروں کے غم و غصے کو دیکھ کر زائرین اپنا احتجاج ختم کرکے واپس قرنطینہ مرکز چلے گئے۔
ڈپٹی کمشنر چاغی شیر زمان نے اردو نیوز کو ٹیلیفون پر بتایا کہ ’زائرین کے مسائل حل کر دیے گئے ہیں۔ انہیں اب چکن پیس اور قورمہ دیا جا رہا ہے۔ پھل بھی دیے جائیں گے۔ دو شفٹوں میں صفائی بھی شرو ع کر دی گئی ہے۔ پہلے ڈاکٹرز کی کمی تھی اب چار ڈاکٹر دن میں دو مرتبہ زائرین کا معائنہ کرتے ہیں۔‘

حکام کا کہنا ہے کہ کورونا کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے تمام تر اقدامات کیے گئے ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’زائرین میں موجود بعض منفی عناصر باقیوں کو احتجاج پر اکسا رہے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ قرنطینہ کی مدت پوری کیے بغیر واپس گھر جانے کی اجازت دی جائے مگر ہم نے انہیں واضح کردیا کہ ایسا کسی صورت نہیں ہوسکتا۔ ایک ہفتے تک طبی نگرانی میں رہنے کے بعد ہی زائرین کو واپس جانے دیا جائے گا۔‘
دوسری جانب پاکستان نے ایران کے ساتھ ساتھ افغانستان کے ساتھ بھی اپنی سرحد چمن کے مقام پر بند کر دی ہے۔
وفاقی وزارت داخلہ کے اعلامیے کے مطابق پاک افغان چمن سرحد دو مارچ سے ایک ہفتے کے لیے ہر قسم کی آمدورفت اور تجارت کے لیے بند کی گئی ہے تاکہ سرحد کے دونوں جانب وائرس منتقل نہ ہوں۔
ایک ہفتے میں پاکستان اور افغانستان کے حکام اپنی اپنی حدود میں وائرس کی منتقلی روکنے کے لیے اقدامات کریں گے۔
یاد رہے کہ پاکستان میں اب تک کورونا وائرس کے چار کیسز کی تصدیق ہوئی ہے جبکہ افغانستان میں بھی کورونا کے مریض سامنے آئے ہیں۔
افغانستان کے ساتھ بلوچستان کے سات اضلاع کی سرحدیں لگتی ہیں۔ چمن کے علاوہ بادینی، مرغہ فقیر زئی، قمر الدین کاریز، نوشکی اور برامچہ کے مقامات پر بھی پاک افغان سرحد پر آمدورفت کی اجازت نہیں دی جارہی۔
سرحد کی بندش کی وجہ سے چمن اور افغان سرحدی شہر سپین بولدک میں ہزاروں پاکستانی اور افغانی باشندے پھنس گئے ہیں۔
محکمہ صحت بلوچستان کے مطابق افغان سرحد پر کورونا وائرس کے مریضوں کی شناخت اور علاج کی سہولیات کے لیے مزید اقدامات کیے جارہے ہیں کیونکہ اس سرحد سے ایران کی نسبت بہت زیادہ تعداد میں لوگ بلوچستان آتے ہیں۔
صرف 27 فروری سے 29 فروری تک چمن کے راستے افغانستان سے 58 ہزار 646 لوگ افغانستان سے پاکستان میں داخل ہوئے۔

کورونا سے بچاؤ کے لیے پاکستان نے ایران اور افغانستان سے سرحد بند کر رکھی ہے (فوٹو: اے ایف پی)

عالمی ادارہ صحت کے اعدادو شمار کے مطابق ان تین دنوں میں ایران، افغانستان سے زمینی راستے جبکہ کوئٹہ، تربت اور گوادر ایئر پورٹ پر فضائی راستے سے 60 ہزار 279 افراد بلوچستان میں داخل ہوئے۔
ان سب افراد کی محکمہ صحت کی ٹیموں نے سکریننگ کی اور مشتبہ مریضوں کے نمونے ٹیسٹ کے لیے کوئٹہ اور اسلام آباد بجھوائے۔
کوئٹہ کے فاطمہ جناح چیسٹ اینڈ جنرل ہسپتال کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر نور اللہ موسیٰ خیل کے مطابق ’قومی ادارہ صحت اسلام آباد اور ہمارے ہسپتال کی لیبارٹری نے اب تک 10 مشتبہ مریضوں کے ٹیسٹ کیے ہیں تاہم کسی میں بھی وائرس کی تشخیص نہیں ہوئی۔ وائرس کی تشخیص نہ ہونے پر اتوار کو ہسپتال کے آئسولیشن وارڈ میں رکھے گئے مریض کو ڈسچارج کر دیا گیا۔‘

شیئر:

متعلقہ خبریں