Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

قلندرز ٹیم نہیں، کیفیت بن چکی

لاہور قلندرز نے خراب آغاز کے بعد پی ایس ایل میں تین میچ جیت لیے۔ فوٹو: اے ایف پی
پی ایس ایل کے اِس میلے میں، جذبات کے اِس ریلے میں، ٹیموں کے اِس جھرمٹ میں، تمہیں اک کیفیت ملے گی، اور اس کیفیت کا نام ہوگا لاہور قلندرز۔ جی، میرے لیے لاہور قلندرز ٹیم نہیں، بلکہ اک کیفیت بن چکی ہے. اور جب وہ کیفیت مجھ پر طاری ہوتی ہے، تو یا تو میں برباد ہوتی ہوں یا پِھر خوشی سے نہال. یہ وہ کیفیت ہے جو پی ایس ایل میں شامل ہر انسان محسوس کرنا چاہتا ہے. جہاں یہ کیفیت دلوں کو تباہ کرتی ہے، وہاں یہ کیفیت پی ایس ایل کی جان بھی ہے. ٹیبل کے سب سے نیچے ہونے پر بھی کمنٹیٹرز یہی کہتے پائے گئے، ’کسی طرح لاہور جیت نہیں سکتا ؟ ان کے ٹورنامنٹ میں رہنے سے ہی تو رونق ہے۔‘
مزے کی بات یہ ہے کہ لاہور قلندرز کی ٹِیم کو دیکھنے کے بعد ان کے ہارنے کا عمل آپ کے ایمان کا حصہ بن جاتا ہے. جس ٹِیم میں سلمان بٹ اور حفیظ ہوں اور جس ٹِیم میں وہ سارے انگریز کھلاڑی ہوں جن کا آپ نے زندگی میں کبھی نام بھی نہ سنا تھا، اور جس ٹِیم کے کیپٹن کا نام ابھی تک لوگوں کو یاد نہیں ہوا، اُس کا جیتنا اتنا ہی غیر ضروری ہے جتنا پنجاب کی حکومت میں وزیراعلی کا ہونا ہے.

 

جہاں اِس بار ملتان سلطانز ہر کسی پر چھا رہے ہیں اور دفاعی ٹیم کوئٹہ گلیڈی ایٹرز احمد شہزاد کو برداشت کر رہی ہے، وہاں لاہور قلندرز وہ کر رہے ہیں جس کی نہ ان سے امید ہوتی ہے اور نہ ہی کسی کے دماغ میں ایسی سوچ ہوتی ہے. پہلے تِین پی ایس ایل میچز ہارنے کے بعد لاہور قلندرز کو بھی شاید یہ لگنے لگ گیا تھا کہ انہوں نے اپنا ہارنے کا ہی ریکارڈ بچانا ہے. لیکن پِھر اک دن، کوئٹہ کے خلاف، لاہور کی ٹیم کو یاد آیا کے ’اوئے، اسی وی کھیڈن ای آئیں آں.‘ اور پِھر شروع ہوئی لاہور قلندرز کی کیفیت جس میں وہ 209 کر گئے. یقین مانیں، ان کے 209 کرنے پر اک بار تو میں بھی کہہ اٹھی، ’یار، اپنے ہارنے کا ریکارڈ تو نہ خراب کرو کمبختو۔‘ روشنیوں کے شہر لاہور میں چمکتی ہوئی ’ٹنڈوں‘ کے سائے میں قلندرز کی جیت نے یہ بھی ثابت کیا کہ لاہور اور ’ٹنڈوں‘ کا اک خاص رشتہ ہے ، جو ووٹ کو عزت دینے یا نہ دینے سے بالاتر ہے۔

کرچی کنگز کے شرجیل خان کو آؤٹ کرنے کے بعد لاہور قلندرز کے کھلاڑی خوشی کا اظہار کر رہے ہیں۔ فوٹو: اے ایف پی

یہ اک عجیب کیفیت ہے کہ جب لاہور کی ٹیم جیتنے پر آتی ہے تو ہم فینز کو ان کے ہارنے کے ریکارڈ کی پڑ جاتی ہے کیوں کہ بھائی کوئی تو ریکارڈ رہے ہمارے پاس ! لیکن ہمارے جیتنے کی سٹریک اتنی ہی لمبی ہے جتنی شاہد آفریدی کی بیٹنگ. اگلا ہی میچ ہار کر قلندرز نے اپنے فینز کو بتا دیا کہ ’روز روز جیتنا؟ یہ ہم نہیں!‘ میچ میں اسلام آباد سے ہارنے کے بعد اک خاص سکون یہ سوچ کر ملا کہ ’چلو کوئی ہم سے ذیادہ ابھی تک ہارا تو نہیں نا۔‘
ابھی لاہور قلندر کے سپورٹرز اپنی ہار کا جشن منا ہی رہے تھے قذافی اسٹیڈیم کے باہر، جہاں منچلے ’اسی فیر ہار گئے ، ہے جمالو‘ گاتے سنے گئے ، لاہور نے پلٹا کھایا اور ایک اور میچ جیتنے کی جسارت کی. اور حد تو یہ ہوئی کے کراچی کنگز، جو کہ اچھی خاصی ٹیم ہے عماد‎‎ وسیم کو نکال کر، لاہور قلندرز نے ان کو بھی ہرا دیا. تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ لاہور کبھی دو میچ اکٹھے نہیں جیتی لیکن اِس بار قلندرز نے سائنس کی تحقیق کو بھی غلط ثابت کر دیا. اور تو اور، کراچی کے خلاف لاہور کے کیپٹن جن کا نام میں اِس وقت پِھر بھول چکی ہوں، وہ بھی ناٹ آؤٹ رہے. لاہور کے کیپٹن پر زیادہ تر کیمرہ بھی نہیں جاتا کیوں کہ ہمیں یقین ہے کہ ابھی تک کیمرہ من کو بھی نہیں پتہ چلا کہ کیپٹن ہے کون. میں یہ بتاتی چلوں کہ لاہور کی ٹیم میں سلمان بٹ کا ابھی تک کا کردار صرف جگہ گھیرنے کا رہا ہے. ان کی جگہ آپ کسی کو بھی نہ ڈالیں ٹیم میں تو بھی میچ جیت سکتے ہیں۔

لاہور قلندرز نے کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے خلاف غیر معمولی کارکردگی دکھا کر شائقین کو حیران کر دیا۔ فوٹو: اے ایف پی

اب آ جائیں اس نام کی طرف جس کو اتنا کریڈٹ نئی دیا گیا جتنا دینا چاہیے. وہ نام جو ہر جگہ گونجنا چاہیے، لیکن نہیں گونجا. وہ نام جو مسلسل محنت سے اور خاموشی سے روشن ہوتا ہی گیا. شاہین شاہ آفریدی. لاہور کی شان، پاکستان کا مان اور میرے دِل اور آنکھوں کا سکون. شاہین لاہور قلندرز کی شہہ رگ بن چکے ہیں. جب اگلی ٹیم کو 1 بال پر 22 رنز چاہیے ہوتے ہیں، اور ہمیں لگ رہا ہوتا ہے کے وہ یہ کر بھی جائیں گے کیوں کہ لاہور کی قسمت ہی ایسی ہے ، اس موقع پر شاہین کی باؤلنگ سے اک عجیب سا سکون ملتا ہے. شاہین کی قلندرز میں موجودگی اک مسلسل آسرا ہے. حالات چاہیں کچھ بھی ہوں، لاہور قلندرز کے فین ایک بات کہتے ضرور سنائی دیں گے، ’یار کوئی نئی کوئی نئی، شاہین تو ہے نا۔‘

 بیٹسمین بین ڈنک نے لاہور قلندرز کی جیت میں اہم کردار ادا کیا۔ فوٹو: اے ایف پی

لاہور کی کراچی کے خلاف جیت کے بعد، اک بڑی اور اصلی تبدیلی آئی ہے. اور وہ تبدیلی یہ ہے کہ لاہور اب ٹیبل پوائنٹس پر سب سے نیچے نہیں ہے. پچھلے چار سال لاہور قلندرز کو ٹیبل کے نیچے دیکھ دیکھ کر ہم فینز کسی سے آنکھیں ملانے جوگے نہیں رہے تھے کیوں کہ ٹیم اوپر جاتی تو نگاہیں اٹھتیں!
ابھی بھی لاہور کے لیے سفر لمبا ہے. ابھی بھی ہمیں جیتنا ہوگا بے شک جتنا مرضی دِل کرے کہ ہار جائیں. کراچی کے خلاف جیت کے بعد اک بات کا احساس تو ہوا ہے کہ لاہور دا کوئی مول نئی!

شیئر: