Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کورونا سے بچاؤ، دنیا کے پاس راستہ کیا ہے؟

کورونا کے پھیلاﺅ اور انجانے مستقبل نے پوری دنیا میں گھبراہٹ پیدا کردی ہے ۔
منظر نامہ ایسا ہے جیسا کہ دنیا ختم ہونے والی ہو۔ سٹیڈیم، بازار، تھیٹر اور سینما گھر شائقین سے خالی ہو چکے ہیں۔ ہوائی اڈوں، بین الاقوامی پروازوں، بری سرحدی چوکیوں اور سیر و سیاحت کی سرگرمیوں میں کمی آ گئی ہے۔
کانفرنسیں اور تقریبات منسوخ کر دی گئیں۔ تمام مذاہب کے عبادت گھر بند کر دیے گئے۔ اس کے باوجود کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب نئے کورونا وائرس کے مریضوں کی اموات نہ ہورہی ہوں اور نئے متاثر ین کورونا کی زد میں نہ آرہے ہوں۔
متاثرین کی تعداد ایک لاکھ سے تجاوز کرچکی ہے۔ تقریباً دس لاکھ تک متاثر ہوسکتے ہیں۔ چھ ہفتے قبل صرف ایک ملک نئے کورونا وائر س کی زد میں تھا اب نوے ممالک کے باشندے اس کی گرفت میں آ چکے ہیں۔

چھ ہفتے قبل صرف ایک ملک نئے کورونا وائر س کی زد میں تھا (فوٹو: ای پی اے )

تیزی سے کورونا وائرس کا پھیلاﺅ اور انجانے مستقبل نے پوری دنیا میں گھبراہٹ پیدا کر دی ہے ۔ سارا جہاں نئی تاریخ میں غیر معمولی حفاظتی تدابیر پر آمادہ ہو چکا ہے۔
کیا گھبراہٹ جائز ہے؟
کیا ہم سماجی وسائل کو اس پر لعنت ملامت کریں،سازش کے نظریات قبول کریں یا سیاستدانوں کو اس کا ذمہ دار ٹھہرائیں؟۔
یقینی حقیقت یہ ہے کہ صورتحال گمبھیر ہے۔ مستقبل میں غالباً صورتحال زیادہ گمبھیر ہوگی۔
ڈاکٹر اس بات پر متفق ہوچکے ہیں کہ کورونا وائرس کی کوئی ویکسین او راس کاکوئی یقینی علاج غالباً سال رواں کے اختتام سے قبل پیش کرنا ممکن نہیں ہوگا۔

متاثرین کی تعداد ایک لاکھ سے تجاوز کرچکی ہے۔(فوٹو روئٹر)

خطرے کا پہلو یہ ہے کہ یہ وائرس تیزی سے پھیل رہا ہے۔ متاثرین کی تعداد بڑھ رہی ہے لہذا حکومتوں کا فرض ہے کہ وہ سال رواں کے اختتام تک کورونا وائرس کے پھیلاﺅ کا دائرہ محدود کرنے کے لیے انتہائی اقدامات کریں۔ اس امید پر کام کریں کہ ممکن ہے کہ اس وائرس کا کوئی تریاق ہاتھ آجائے یا اس کے پھیلاﺅ کو روکنے والی کوئی ترکیب مل جائے۔
دنیا بھر کے سامنے بدترین امکانات کو سامنے رکھ کر کام کرنے کے سوا کوئی اور راستہ نہیں ہے۔
ہمارے سامنے انتظار کے لیے نو ماہ باقی ہیں۔ ممکن ہے کہ انتظار کی گھڑیاں ایک سال یا دو برس تک کھنچ جائیں۔
ہمیں یہ بات سمجھنا ہوگی کہ کورونا وائرس کے مشکل بحران سے نمٹنے والے عہدیدار مشکل میں ہیں۔ ایک طرف تو وہ بچاﺅ کے اقدامات تیزی کے ساتھ کررہے ہیں ممکن ہے نوبت یہاں تک پہنچ جائے کہ پوری دنیا قرنطینہ میں تبدیل ہوجائے۔ سب لوگ اپنے شہروں اور اپنے محلوں تک محصور ہوکر رہ جائیں۔ اموات لاکھوں بلکہ کروڑوں تک پہنچ جائیں۔ کسے پتہ صورتحال بے حد مبہم ہے۔

دنیا تباہ کن خطرے کو لگام لگانے کے لیے تعاون کی حد درجہ محتاج ہے۔(فوٹواے پی)

 دوسری جانب کورونا وائرس سے نمٹنے والے عہدیدار یہ بھی نہیں چاہتے کہ لوگوں کو خوفزدہ کریں۔ تاکہ لوگ گھبراہٹ میں مبتلانہ ہوجائیں اور انارکی کا دور دورہ نہ ہوجائے۔ سڑکیں اور شہر جنگ کے میدانوں میں نہ تبدیل ہوجائیں۔ لوٹ مار اور جرائم نہ پھیل جائیں کہ عام طور پر اجتماعی خوف اور بدنظمی کے عالم میں یہ سب کچھ ہوجاتا ہے۔
دنیا بھر کی حکومتوں کا فرض ہے کہ وہ وائرس پر قابو پانے اور اس کے پھیلاﺅ کو روکنے کے لیے ایک دوسرے سے تعاون کریں۔ تعاون کے سوا کوئی اور راستہ نہیں۔ یہ کام عداوت سے بالا ہوکر کرنا ہوگا۔ اسی تناظر می ںسعودی حکومت نے ایرانی حکام سے درخواست کی ہے کہ وہ اپنے یہاں آنے اور جانے والے سعودی شہریوں کی رپورٹ کریں۔
دراصل ایران اپنے یہاں آنے والے سعودیو ں کے پاسپورٹس پر مہر نہیں لگاتا۔ وجہ یہ ہے کہ سیاسی تعلقات منقطع ہونے کے بعد سے سعودیوں کے ایران جانے پر پابندی لگی ہوئی ہے۔ سعودی عرب ایران سے یہ درخواست اس لیے نہیں کررہا ہے کہ وہ اپنے شہریوں کا احتساب کرنا چاہتا ہے ۔سچ یہ ہے کہ وائرس کے پھیلاﺅ کے امکان کے پیش نظر صورتحال بے حد خطرناک ہے۔

یقینی حقیقت یہ ہے کہ صورتحال گمبھیر ہے۔(فوٹو اےایف پی)

سعودی حکومت نے اعلان کیا ہے کہ وہ اپنے ان شہریوں کا کوئی احتساب نہیں کرے گی جو اپنے طور پر آگے بڑھ کر یہ اطلاع  دیں کہ وہ ایران میں تھے یا ایران میں ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ سفری قوانین کی خلاف ورزی کا جرم کورونا وائرس کی منتقلی کے جرم سے بہت کم درجے کا ہے۔جو شخص بھی کورونا سے متاثرہ ملک سے سعودی عرب واپس ہوگا ممکن ہے کہ اسے اس کا علم بھی نہ ہو کہ وہ وائرس میں مبتلا ہے۔ اس کے اس طرح مملکت واپس ہونے سے پورا معاشرہ خطرات سے دوچار ہوجائے گا۔ ایران سے امید کی جاتی ہے کہ وہ اس سلسلے میں سعودی عرب سے تعاون کرے اور سیاسی اختلافات کو بالائے طاق رکھ دے۔
ہمارے سامنے ایک قابل تحسین مثال امریکہ کی ہے۔ امریکی انتخابات میں حریف پارٹیوں نے شدید اختلاف کے باوجود کورونا وائرس سے نمٹنے کے سلسلے میں بھرپور تعاون کا مظاہرہ کیا ہے۔

ممکن ہے کہ انتظار کی گھڑیاں ایک سال یا دو برس تک کھنچ جائیں۔ (فوٹو: سوشل میڈیا)

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کورونا پر ریسرچ اور علاج کے لیے کانگریس سے ہنگامی بنیاد پر ڈھائی ارب ڈالر فراہم کرنے کی درخواست کی تھی تاہم ڈیموکریٹک پارٹی کے ارکان پارلیمنٹ نے نہ صرف یہ کہ صدر ٹرمپ کی درخواست کی حمایت کی بلکہ انہوں نے خطرے کو بھانپ کر اور فرض شناسی کے احساس سے ڈھائی ارب ڈالر کے بجائے ساڑھے آٹھ ارب ڈالر کی منظوری دے دی۔
یقینا نئی دنیا تباہ کن خطرے کو لگام لگانے کے لیے تعاون کی حد درجہ محتاج ہے۔

شیئر: