Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

خود کو دیکھیں مگر پیار سے

کافکا نے دوست کو وصیت کی تھی کہ اس کی تحریریں جلا دی جائیں (فوٹو: سوشل میڈیا)
اگر آپ کتب بینی کے شوقین ہیں تو آپ نے یقیناً فرانز کافکا کا نام سن رکھا ہو گا، ان کے ایک مشہور ناول کا نام ’دی ٹرائل‘ ہے۔ اس ناول کا مرکزی کردار ایک دن سو کراٹھتا ہے تو پتہ چلتا ہے کہ اس پہ سرکار کی جانب سے مقدمہ قائم کر دیا گیا ہے۔
الزام کیا ہے، اس بارے میں کچھ معلوم نہیں۔ پوری کہانی اسی مقدمے کے گرد گھومتی ہے۔ الزام معلوم نہ ہونے کے باوجود بھی وہ سالوں عدالتی نظام میں خوار ہوتے ہوئے گزار دیتا ہے اور پھر ایک روز اچانک سرکاری اہلکار اسے گھر سے اٹھا کر لے جاتے ہیں اور سینے میں خنجر اتار کر مار دیتے ہیں۔ 
اس ناول کے بعد ایک اصطلاح ’کافکا ایسک‘ مشہور ہوئی، یعنی ہر اُس نظام یا شخص کے لیے ’کافکا ایسک‘ کا صیغہ استعمال کیا جانے لگا جہاں سرکاری اداروں یا کوئی بھی ایسا پیچیدہ نظام جس میں پھنسے شخص کو معلوم ہی نہ ہو کہ یہ کاغذی کارروائیاں کیوں کی جا رہی ہیں؟ ماسوائے وقت کے ضیاع کے ان کا اور کیا مصرف ہے؟ یا کسی شخص کو اپنی ذات کا مقصد و اہمیت ہی معلوم نہ ہو اور وہ بے سروپا زندگی گزار دے۔
فرانز کافکا کی کہانی بھی بہت دلچسپ ہے۔ اس کا تمام لٹریچراسی طرح کا ہے۔ جہاں ایک شخص اپنی ہی کسی ایسی اُلجھن یا ذمہ داریوں میں پھنسا ہوتا ہے جہاں وہ بے بسی کی آخری حد تک اپنے بنائے پنجرے میں قید ہوتا ہے۔
فرانز کافکا کا والد ہرمن کافکا ایک کامیاب کاروباری شخصیت تھا جس نے اپنی محنت سے یہ مقام حاصل کیا۔ اس کی خواہش تھی کہ اس کا بیٹا بھی ایسا ہو کہ جس پر وہ فخر کر سکے۔

فرانز کافکا نے بمشکل تین کتابیں شائع کروانے کرنے کے بعد باقی کام ادھورا چھوڑ دیا (فوٹو:سوشل میڈیا)

پیدائش کے وقت فرانز کافکا انتہائی کمزور تھا۔ اسے دیکھتے ہی باپ کو سخت مایوسی ہوئی۔ فرانز کافکا رائٹر بننا چاہتا تھا مگر اس کے باپ نے اسے قانون دان بننے کا کہا لہٰذا لکھائی کو پیشہ بنانے کا ارادہ ترک کر کے فرانز کافکا نے لا کالج میں داخلہ لیا۔
ٹھیک اسی طرح فرانزکافکا کا سارا بچپن اپنے باپ کی توجہ حاصل کرنے کی ناکام کوششوں میں ہی ضائع ہوا۔ اس کا باپ اُسے سخت سزائیں دیتا جسے وہ چپ چاپ سہتا رہا اور آخر میں اُس نے یہ تسلیم کر لیا کہ اس کا باپ ٹھیک ہے۔
اس کی ذات واقعی حقارت کے لائق ہے اسی لیے فرانزکافکا نے اپنی محبوبہ ڈورا ڈیمنٹ جیسی وفادار خاتون سے شادی بھی نہیں کی۔
بمشکل تین کتابیں شائع کرنے کے بعد باقی کام ادھورا چھوڑ دیا اور بسترِ مرگ پہ اپنے واحد دوست میکس براڈ کو تاکید کی کہ موت کے بعد میرے سارے لکھے کام کو جلا دینا، یہ اس قابل نہیں کہ کوئی اسے پڑھے۔
میکس براڈ اُس کی زندگی میں موجود واحد شخص تھا جسے لگتا تھا کہ فرانز کافکا کا کام بہت معیاری ہے اُسے اپنے منفی خول سے نکل کر اپنی لکھائی کو اہمیت دینی چاہیے۔ بہرحال طویل بیماری کے بعد اسی حالتِ مایوسی میں فرانزکافکا کی موت واقع ہو گئی۔

فرانز کافکا نے اپنی محبوبہ سے شادی بھی نہیں کی (فوٹو: سوشل میڈیا)

موت سے کچھ سال قبل بھی اس نے اپنے باپ کو ایک سینتالیس یا چھیالیس صفحات پر مشتمل خط لکھا جس میں اپنی زندگی کی تکالیف کا ذکر کیا کہ شاید اسی طرح اُس کے باپ کو رحم آ جائے اور وہ اسے اپنا بیٹا تسلیم کر لے یا دو بول محبت کے ہی بول دے۔ فرانز کافکا کی موت کے بعد اُس کے دوست میکس براڈ نے وصیت کو نظرانداز کرتے ہوئے اُس کے تمام کام کو یکجا کیا اور شائع کروانا شروع کر دیا۔
فرانز کافکا کی تین مشہور زمانہ کتابیں دی ٹرائل، دی کاسل اور امریکہ موت کے بعد شائع ہوئیں جن کو بے پناہ مقبولیت ملی اور بعد از وفات فرانز کافکا کو بیسویں صدی کا نامور مصنف بنا گئیں۔ آپ کو کیا لگتا ہے فرانزکافکا نے اپنی زندگی میں کہاں غلطی کی؟ میرے خیال میں سب سے پہلی اور بڑی غلطی یہ تھی کہ وہ ایک فلاسفر تو تھا پر فلسفے کی بنیاد ’ پلاٹو‘ کو نہیں پڑھ رکھا تھا۔
یا پھر شاید پڑھا بھی ہو پر سمجھ نہ پایا ہو اسی وجہ سے اس نے جو دوسری بڑی غلطی کی وہ وہی غلطی ہے جس کا آج بھی ہم میں سے بہت سے لوگ ارتکاب کرتے ہیں پہلی غلطی اگر فرانز کافکا نے پلاٹو کو پڑھا ہوتا تو اُسے معلوم ہوتا کہ پلاٹو نے کامیاب زندگی گزارنے کے جو چار اصول بتائے تھے اُن میں سے ایک یہ تھا کہ جو تم سے پیار کرتا ہے اُسے اپنی ذات پر اتنا اختیار دو کہ اس میں اپنی مرضی کی تبدیلی لا سکے۔

فرانز کافکا کی تین مشہور زمانہ کتابیں دی ٹرائل، دی کاسل اور امریکہ موت کے بعد شائع ہوئیں (فوٹو: سوشل میڈیا)

دوسری غلطی فرانز کافکا خود کو ہمیشہ اپنے باپ کی نظروں سے دیکھتا رہا لہٰذا اپنی ذات کو ہمیشہ چھوٹا سمجھا۔ اپنے کام کو کچرا سمجھتے ہوئے اُس پر اتنا شرمندہ رہا کہ پبلش کروانے تک کا نہ سوچا۔ اگر وہ خود کو اپنے مخلص دوست کی نظر سے دیکھتا تو اُسے معلوم ہوتا کہ وہ کتنا باصلاحیت انسان ہے۔
ٹھیک یہی غلطی ہم میں سے اکثر افراد ساری زندگی کرتے رہتے ہیں کہ ہم اپنی ذات کو اُن کی نظروں سے دیکھتے ہیں جو ہمیں پسند نہیں کرتے (ہم اُنہیں بہت پسند کرتے ہیں) اور پھر ساری زندگی خود میں وہی تبدیلیاں لانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں جن سے ہم کسی طرح اُن کی نظر میں قابلِ قبول ہو جائیں۔
اس سے ہماری اپنی ذات کی اہمیت ہمارے لیے بالکل ختم ہو جاتی ہے اور ہم ’کافکا ایسک‘ کی ایک مورت بن جاتے ہیں۔ فرانز کافکا نے ساری عمر باپ کی نظر میں قابلِ قبول بننے میں گزار دی، لہٰذا اُسے وہ لوگ دکھائی ہی نہ دیے جنہیں وہ پرفیکٹ اور انتہائی قابل لکھاری لگتا تھا۔ چاہے وہ اس کا مخلص دوست میکس براڈ ہو یا اُس کے مشکل وقت کی ساتھی ڈورا ڈائمنٹ ہو، نتیجہ کیا نکلا؟ انسومنیا، اینزائٹی، مائیگرین اور ڈپریشن میں لپٹی تکلیف دہ اور مایوس کن زندگی اور موت۔

میکس براڈ اُس کی زندگی میں موجود واحد شخص تھا جسے لگتا تھا کہ فرانز کافکا کا کام بہت معیاری ہے (فوٹو: سوشل میڈیا)

اگر آپ کو لگتا ہے کہ آپ ناکام ہیں یا آپ کی ذات حقیر ہے تو یقین جانیں آپ خود کو غلط لوگوں کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں۔ کچھ دیر سکون کیجیے اور خود کو اُن رشتوں، دوستوں کی نگاہ سے دیکھنے کی کوشش کیجیے جو آپ سے محبت کرتے ہیں۔ یقین جانیں آپ کو اپنی ذات اور یہ زندگی خوبصورت بھی لگے گی اور آپ کا اس دنیا میں وقت بھی اچھا گزرے گا۔
اگر آپ خود کو اس مایوس سوچ سے نہیں نکال سکتے تو خود کو ان کے حوالے کر کے دیکھیں جو آپ سے محبت کرتے ہیں پھر چاہے وہ آپ کے بہن بھائی ہوں۔ ماں باپ ہوں، شریکِ حیات ہو، اولاد ہو یا کوئی مخلص دوست، یقین جانیں آپ سے محبت کرنے والوں میں یہ سپرپاور موجود ہوتی ہے کہ وہ چن چن کر آپ کی ذات سے ہر منفی شے کو نکال کر آپ کی ذات کو خوبصورت بنا کر امیدوں سے بھرپور کردیں۔ آزمائش شرط ہے۔

شیئر: