Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اٹلی: خوف کے سائے میں امید کی کرن

کورونا کی وبا نے اب تک 200 ملکوں کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے (فوٹو: ٹوئٹر)
رات کے اس پہر اٹالین، جرمن، امریکن اور برٹش میڈیا کی کورونا وائرس سے متعلق اپڈیٹس دیکھ لینے کے بعد دل بہت اداس ہے۔ شاید لفظ اداس اس کیفیت کو بیان کرنے سے قاصر ہے۔
کورونا کا جو شعلہ چین سے اٹھا تھا وہ اب تک 200 ملکوں میں آگ لگا چکا ہے اور اٹلی جو پچھلے ڈھائی سال سے میرا مسکن ہے یہاں تو اس جان لیوا وائرس سے ایسی ویرانی اور مردنی چھائی ہے کہ بہار کے رنگ بھی  مانند پڑ گئے ہیں۔
ہر سو موت رقص کرتی دکھائی دیتی ہے۔ لوگ سہمے ہوئے مرجھائے ہوئے اپنے اپنے گھروں میں قید ہیں۔
اٹلی میں اب تک دس ہزار افراد ہلاک ہو چکے ہیں اور ہزاروں اس موذی وائرس کا شکار ہیں۔ اٹلی کے بعد سپین یورپ کا دوسرا ملک ہے جہاں یہ مہلک وائرس اب تک پانچ ہزار افراد کی جان لے چکا ہے۔
ہر گزرتا لمحہ صرف موت کی اطلاع دیتا ہے اور پھر سسکیوں کی گونج سنائی دیتی ہے۔ ایسی وحشت ایسی ویرانی تو پہلی محبت کے مایوس کن انجام پر بھی نہیں ہوتی۔ میں کورونا کی ہولناکیوں کو تحریر نہیں کرنا چاہتی تھی اور نہ کر سکتی ہوں۔
اسی عالم میں اپنے کتھارسس کے لیے کبھی قلم اٹھا کر لکھنے لگتی ہوں اور کبھی موبائل پر ٹائپ کرتی ھوں لیکن کچھ مکمل نہیں ہوتا۔
آج محمود شام صاحب نے فیس بک پر کہا 'ہمت کرو حوصلہ رکھو سب ٹھیک ہو جائے گا' تو دل کو بس تھوڑی دیر کے لیے تسلی سی ہوئی اور پھر بہت دن بعد میوزک سننے کا من ہوا۔  موبائل پر یوٹیوب آن کر کے میں نے بہت عرصے بعد  جنید جمشید کا مشہور گانا:
تمھارا اور میرا نام
جنگل میں درختوں پر
ابھی لکھا ہوا ہے تم
کبھی جا کے مٹا آؤ
لگا لیا۔۔۔ گاںا سنا اور بار بار سنا۔۔۔

 پاکستان کا یہ روشن اور ابھرتا ہوا چہرہ یورپ میں مقیم پاکستانیوں کے لیے باعث فخر ہے (فوٹو: فیس بک)

میں یہ گاںا سن ہی رہی تھی کہ لیپ ٹاپ کی سکرین پر  ڈی ڈبلیو کی ایک رپورٹ پر میری نظر پڑی۔ یہ رپورٹ سپین سے تھی اس رپورٹ کو پڑھنے اور دیکھنے کے بعد ایسا لگا کہ زندگی موت کو شکست دے دے گی۔  
یہ رپورٹ سپین میں موجود پاکستانی ٹیکسی ڈرائیورز کی ایک مہم سے متعلق تھی۔ رپورٹ چونکہ مختصر تھی اس لیے میرا تجسس بڑھا اور اس مہم سے وابستہ لو گوں کو سوشل میڈیا پر تلاش کر نا شروع کر دیا۔ خوش قسمتی سے اس مہم سے جڑی ایک  شخصیت میری فیس بک کی  فرینڈ لسٹ پر پہلے سے ہی موجود تھی۔
سید شیراز سے رابطہ کر کے  اس مہم کی تفصیلات معلوم کیں تو  دل خوشی سے نہال ھو گیا۔  
سید شیراز اور ان کے تین دوستوں نے مشترکہ کاوش کے نتیجے میں سپین کے شہر بار سلونا میں پاکستانی ٹیکسی سروس سے وابستہ  لوگوں کو مہم  Fightagainstcovid19# کے تحت جمع کیا اور بارسلونا کے درجنوں اسپتالوں سے منسلک  ڈاکٹرز ، نرسزز، پیرامیڈیکل اسٹاف کو  فری پک اینڈ ڈراپ سروس دینے کی مہم کا آغاز کیا۔  
شروع میں اس مہم میں چالیس کے قریب پاکستانی ڈرائیوروں نے  حصہ لیا لیکن اب تقریبا 200 سے زیادہ ڈرائیور حضرات  اس مہم  کا  حصہ ہیں۔
یہ ایک مشکل کام تھا لیکن سید شیراز اور ان کے دوستوں کی انتھک محنت کے باعث انجام پایا۔  یہ مہم وبا کے دہشت زدہ ماحول میں انسان دوستی کی اعلی مثال ھے۔  جس طرح کرونا وائرس کی کوئی سرحد نہیں اسی طرح احساس کا رشتہ بھی رنگ نسل  مذہب اور قومیت سے بالا تر ہو کر انسانیت کی خدمت پر معمور ہوتا ہے۔

اب تقریبا 200 سے زیادہ ڈرائیورز  Fightagainstcovid19# مہم  کا  حصہ ہیں (فوٹو: سوشل میڈیا)

 پاکستان کا یہ روشن اور ابھرتا ہوا چہرہ یورپ میں مقیم پاکستانیوں کے لیے باعث فخر ہے۔
وبا کے یہ دن بھی گزر جائیں گے خوف کے بادل بھی چھٹ جائیں گے    دنیا اپنی ڈگر پر چل پڑے گی  کبھی وبا کی خوف ناک راتیں اور  بے چین صبحیں  یورپ کے لوگوں کو یاد آئیں گی تو پاکستانیوں کی بھی اس خدمت کو  یاد  کیا کریں گے۔
وبا کے  دنوں میں موت سے بے پرواہ یہ ٹیکسی ڈرائیورز اپنا نام ہمیشہ کے لیے امر کر گئے۔۔۔ جنید جمشید نے شاید آج کے دن کے لیے ہی یہ گایا تھا:
آنے والے دور کے انساں ہم سے جینا سیکھیں گے
ہم ہیں پاکستانی ہم تو جیتیں گے ہاں جیتیں گے

شیئر: