Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’کیا شہر محبت میں حجام نہیں ہوتے‘

احتیاطی اقدامات کے تحت صرف ضروری خدمات کے مراکز ہی کھلے ہیں (فوٹو اے ایف پی)
’آپ نے سامنے موجود نان فوڈ آئٹمز کی خریداری پر پابندی لگا دی ہے، لیکن میں کورونا وائرس کے خطرے کے باوجود ایسی ہی ایک چیز لینے گھر سے اتنی دور آیا تھا، پلیز مجھے ایک شیونگ ٹریمر لینے کی اجازت دے دیں، وگرنہ شکل بھوت جیسی ہو جانی ہے‘۔ نرم لہجے کے باوجود سیلز مین پر کوئی اثر نہ ہوا بلکہ انہوں نے خریدار کو اس بڑے سپر سٹور کی مینیجمنٹ سے رجوع کا مشورہ دے ڈالا۔
امید اور خدشات کی درمیانی کیفیت میں سٹور کے ایک کونے میں موجود انتظامی دفاتر تک پہنچے، دلائل کی پوری قوت استعمال کر کے اور لہجے میں ساری اثر پزیری سمو کر انتظامی ذمہ دار سے غرض بیان کی لیکن جواب ملا کہ ’سر ہمیں تحریری ہدایت ملی ہے، فوڈ آئٹمز کے سوا کچھ فروخت نہیں کر سکتے، پلیز آپ اصرار نہ کریں‘۔
یہ گفتگو خیال نہیں بلکہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں واقع میٹرو سٹور میں ایک خریدار اور سیلز مین اور پھر خریدار و منتظم کے درمیان ہونے والے مکالمے پر مشتمل ہے۔ کورونا وائرس کا پھیلاؤ روکنے کے لیے قرنطینہ یا معاشرتی دوری رائج ہوئی تو اشیائے ضروریہ کی دکانوں کے علاوہ دیگر تجارتی مراکز بند کر دیے گئے۔
بیوٹی پارلرز، باربر شاپس اور سیلونز بھی اس فہرست میں آئے جو اضافی یا غیر ضروری قرار پائیں۔ کچھ دن تو اس موضوع پر ہلکا پھلکا مزاح ہوتا رہا۔ صنف نازک کی جانب سے طعنے ملے کہ اب باربر شاپس بند ہیں تو چند روز میں سبھی جنگلی لگیں گے، جواب میں صنف نازک کو سننا پڑا کہ میک اپ کے بغیر رہنے والیوں کے دائیں بائیں موجود لوگ کہیں ان سے ڈرنے نہ لگ جائیں۔
اس مذاق کے کچھ نمونے سوشل میڈیا ٹائم لائنز پر بھی دکھائی دیے۔

مسئلہ یا اس کا احساس بڑھا تو سوشل میڈیا صارفین نے اہل اقتدار سے بھی مطالبہ شروع کیا کہ وہی کچھ مداوا کر دیں۔
صہیب رحمن نامی صارف نے وزیراعلی سندھ کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا ’ سائیں مراد علی شاہ صاحب حجام تو کھول دو، مہینے بھر میں سب جنگلی نظر آئیں گے‘۔ اپنے تئیں صورت حال کی بھیانک منظرکشی بھی کی تاکہ کچھ رحم ہی آ جائے اور لکھا ’ بالوں میں جوئیں پڑ جائیگی شاہ صاحب‘۔

حجام کی دکان، باربر شاپس یا ہیئرکٹنگ سیلونز کی بندش کا یہ مسئلہ پاکستانی صارفین تک ہی محدود نہیں رہا بلکہ کم از کم سوشل میڈیا ٹائمز لائنز کی حد تک ایک عالمی مسئلہ دکھائی دیا۔
کیمپر سٹیفی نامی صارف نے اپنی ٹویٹ میں لکھا ’گیارہ جون کو میں باربر شاپ کی جانب جاتے ہوئے‘۔ ساتھ ہی انہوں نے ایک تصویر شیئر کی جس میں بالوں/اون میں چھپی بھیڑ نمایاں ہے۔

گذشتہ برس ستمبر میں رشتہ ازدواج میں بندھنے والے ملائیشین ریاست ساراواک کا مکین جوڑا بھی باربر شاپس کی بندش کے دوران کی صورت حال کی عکاسی کرتا دکھائی دیا، تاہم وہ شکوہ یا مطالبہ کرنے کے بجائے مسئلے کا حل لیے میدان میں آئے۔
ویڈیو میں خاتون ہیئر سٹائلسٹ بنی دکھائی دیتی ہیں جب کہ شوہر چادر اوڑھے سر جھکائے سامنے بیٹھے ہیں۔
چند روز قبل اسی طرح کی ایک ویڈیو بالی وڈ سٹار انوشکا شرما اور ان کے کرکٹر شوہر وراٹ کوہلی کی بھی سامنے آئی تھی جس میں انوشکا ہیئر سٹائلنگ کی مہارت کا مظاہرہ کر رہی تھیں۔  عدنان نامی ایک صارف اس صورت حال کو بھی شکوے کا موقع بنا بیٹھے۔

کچھ صارف ایسے بھی تھے جو باربر شاپس کی بندش پر اظہار حیرت کرتے ہوئے یہ پوچھتے رہے کہ ’باربر شاپس ضروری خدمات میں شامل کیوں نہیں ہیں؟‘

پاکستان کے سابق کرکٹر اور ان کی آسٹریلین نژاد اہلیہ کے درمیان بھی انسٹاگرام پر قرنطینہ کے دوران بگڑے حلیے کے معاملے پر دلچسپ گفتگو ہوئی۔
شنیرا اکرم نے اپنی اور شوہر کی کچھ تصاویر شیئر کیں، ساتھ لکھا کہ قرنطینہ نے ہمیں ایسا بنا دیا ہے۔ جواب میں وسیم اکرم نے لکھا ’آپ نے یہ شیئر کر دیں؟ آپ کہاں ہیں؟ چھپیں لیکن فرار نہیں ہو سکتیں، آپ کے لیے ایک گھنٹہ فون کا استعمال بند‘۔

کچھ باذوق صارفین حجام اور بالوں کو یاد کرتے کرتے ادب کا ذکر نکال بیٹھے۔ علی رضا نامی ایک صارف نے مصحفی غلام ہمدانی کا ایک شعر ٹویٹ کیا:
’بال اپنے بڑھاتے ہیں کس واسطے دیوانے
کیا شہرِ محبت میں حجام نہیں ہوتا‘

واضح رہے کہ دنیا کے بیشتر ملکوں میں اس وقت کورونا وائرس کی وجہ سے لاک ڈاؤن کی صورتحال ہے۔
جان ہاپلکنز یونیورسٹی کے مطابق کورونا وائرس کے نتیجے میں اب تک دنیا بھر میں سات لاکھ 86 ہزار سے زائد افراد متاثر اور 37 ہزار 800 سے زائد اموات ہو چکی ہیں۔
اب تک صحت یاب ہونے والے مریضوں کی تعداد ایک لاکھ 66 ہزار سے زائد ہے۔ کورونا کے سب سے زیادہ مریض امریکہ جب کہ سب سے زیادہ اموات اٹلی میں رپورٹ کی گئی ہیں۔
  • واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ جوائن کریں

شیئر: