Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

انڈیا میں ’براہِ مہربانی تمام مسلم علاقوں کا بائیکاٹ کریں‘

سوشل میڈیا پر تبلیغی جماعت پر شدید تنقید کی جا رہی ہے۔ فوٹو: ٹوئٹر
انڈیا میں کورونا وائرس کے ایک دن میں سب سے زیادہ کیس پیر کو اس وقت سامنے آئے جب بین الاقوامی شہرت کے حامل تبلیغی جماعت کے عالمی مرکز دہلی کے حضرت نظام الدین میں مقیم 24 افراد میں کورونا وائرس کی تشخیص ہوئی۔
انڈیا ٹوڈے کی رپورٹس کے مطابق انڈیا میں کورونا وائرس کے پازیٹو کیسز کی تعداد 13 سو سے تجاوز کر چکی ہے جبکہ 40 افراد کی کورونا سے ہلاکت کی بات کی جا رہی ہے۔
رپورٹس کے مطابق گذشتہ روز کورونا سے تلنگانہ ریاست میں ہونے والی ہلاکتوں میں سے چھ ایسے افراد تھے جو دہلی میں قائم حضرت نظام الدین کے مرکز سے آئے تھے۔
اس کے بعد منگل کو سوشل میڈیا پر اس سلسلے میں کئی قسم کے ٹرینڈز نظر آ رہے ہیں جن میں 'تبلیغی جماعت'، 'نظام الدین'، 'کورونا جہاد'، 'پاور آف پریئر' اور 'جماعت' جیسے ٹرینڈز ٹاپ 15 ٹرینڈز میں شامل ہیں۔
دہلی کے وزیر صحت ستیندر جین نے خبر رساں ادارے اے این آئی کوبتایا ہے کہ مرکز کی عمارت میں موجود 24 لوگوں میں کورونا وائرس کی مثبت رپورٹ آئی ہے۔
انہوں نے کہا 'ہمیں تعداد کا صحیح علم نہیں ہے لیکن مرکز کی عمارت میں 1500 سے 1700 افراد یکجا ہوئے تھے۔ 1033 افراد کو اب تک وہاں سے نکالا گیا ہے۔ ان میں سے 334 کو ہسپتال بھیجا گیا ہے جبکہ 700 کو قرنطینہ کے مراکز میں بھیج دیا گیا ہے۔'
سوشل میڈیا پر تبلیغی جماعت پر شدید تنقید کی جا رہی ہے جبکہ بعض لوگ اسے مذہبی منافرت پھیلانے کے موقعے کے طور پر استعمال کر رہے ہیں اور شاید یہی وجہ ہے کہ 'کورونا جہاد' جیسا ٹرینڈ فی الحال ٹاپ ٹرینڈ ہے۔
بہت سے لوگ تبلیغی جماعت کے مرکز پر حکومت کے حکم کی نافرمانی کا الزام بھی لگا رہے ہیں لیکن ’دی ہندو‘ میں شائع ایک خبر میں بتایا گیا ہے کہ تبلیغی جماعت نے 25 مارچ کو حکومت سے مرکز کو خالی کرانے کے لیے مدد طلب کی تھی۔ 25 تاریخ کے خط میں مرکز کی جانب سے لکھا گیا ہے کہ وہاں اس وقت ایک ہزار سے زیادہ افراد ہیں۔ 'آپ کی ہدایت کے مطابق ہم نے ایس ڈی ایم سے گاڑیوں کے پاس کے لیے رابطہ کیا ہے تاکہ وہاں بچے ہوئے لوگوں کو ان کے مقامات پر پہنچایا جا سکے۔ ایس ڈی ایم دفتر نے ملاقات کے لیے 25 مارچ کو 11 بجے صبح کا وقت دیا ہے۔
اس میں ایس ایچ او کی جانب سے 24 تاریخ کو مرکز کو بند کرنے کے لیے کہے جانے کا ذکر ہے جس پر عمل در آمد کی بات کی گئی ہے۔
انیل کمار آزاد نامی ایک صارف نے لکھا: 'لاک ڈاؤن میں بھی وہ یکجا ہوئے اور کورونا جہاد پھیلانے کی منصوبہ بندی کی۔ برائے مہربانی تمام مسلم علاقوں کا بائیکاٹ کریں، ہندو ہوشیار رہیں اور غداروں سے بچیں۔'
 
 
امت مہرا نامی ایک صارف نے لکھا ہے کہ 'کورونا جہاد بی جے پی اور سنگھیوں کے آٹی سیل ذریعے ٹرینڈ کرایا جا رہا ہے جو نہ صرف قابل نفرت ہے اور فرقہ وارانہ عمل ہے بلکہ منصوبہ بند طریقے سے عوام میڈیا کی توجہ کو بی جے پی اور مودی حکومت کی جانب سے موڑنا ہے جو کہ کورونا وائرس کی تباہی کو ہینڈل کرنے میں ناکام رہی ہے۔ اس طرح کے مزید بہکانے والے ٹرینڈز کی آنے والے دنوں میں امید رکھیں۔'
 
 
بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ جس طرح اچانک لاک ڈاؤن نافذ کیا گیا ہے اس کی وجہ سے بھی لوگ پھنس کر رہ گئے اور انہیں اپنے محفوظ ٹھکانوں پر پہنچنے کا موقع نہیں مل سکا ہے اور اس کی مثال سڑکوں پر سینکڑوں میل کا پیدل سفر کرنے والے مزدور اور ان کے اہل خانہ ہیں۔

شیئر: