Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کورونا سے زیادہ بڑا المیہ

کورونا کے متاثرین اور مرنے والوں کو صیغہ راز میں رکھا گیا-(فوٹو عرب نیوز)
کورونا کی وبا نے خوفناک سیاسی بحران کو طشت از بام کیا ہے- یہ بحران کسی بھی طرح خود نئے کورونا وائرس سے کم خطرناک نہیں-
کورونا کے متاثرین اور مرنے والوں کو صیغہ راز میں رکھا گیا-بعض حکومتوں نے جعلیاعدادوشمار جاری کیے- متاثرین کے اندراج پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی- ہسپتال سے جاری اطلاعات میں ردوبدل کیا گیا-

آخر یہ سب کچھ کیوں کیا گیا؟

مختلف حکومتوں نے یہ سب کچھ اندرون وبیرون ملک اپنی روشن تصویر کو برقرار رکھنے کی خاطر کیاہے- زیادہ بڑا المیہ ان  ممالک میں پیش آیا جنہوں نے نہ صرف حقائق چھپائے بلکہ ضروری فیصلے صرف اس وجہ سے نہیں کیے کہ کہیں ان کی تصویر خراب نہ ہوجائے- یہ ممالک تسلی بخش بیانات جاری کرتے رہے- کورونا سے متعلق منظر عام پر آنے والی اطلاعات کی تردید کرتے رہے- مذاق اڑاتے رہےاپنے خلاف سازش کے نظریے کو ہوا دیتے رہے-
 اس قسم کی حرکتوں کا نقصان نہ صرف یہ کہ اس قسم کے ممالک کے باشندوں کو پہنچا جن میں مقامی شہری اور مقیم غیرملکی شامل تھےاس کا نقصان دیگر ممالک کو بھی ہوا-اس حوالے سے زیادہ گھنی آبادی والے ان ممالک کو زیادہ نقصان پہنچا جن کے شہری دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہیں-

حقیقی تعاون جی 20 کے سربراہ اجلاس کے بعد شروع ہوا ہے-(فوٹو عرب نیوز)

ایسےعالم میں جب پوری دنیا تعاون کا گیت گا رہی ہے کہ المیے کو بڑھنےسے روکنے اور دنیا بھرکے انسانوں کو خطرات سے بچانےکا واحد راستہ یہی ہے کہ ایسےعالم میں امریکی اور چینی ایک دوسرے کے خلاف بڑی پروپیگنڈا جنگ کرنے لگ گئے-
ایک جانب چین کی جانب سے سوشل میڈیا پر کورونا وائرس پر قابو پانے کے سلسلے میں طبی کارناموں کی رپورٹیں پھیلائی گئیں تو دوسری جانب امریکہ کی جانب سے جان بوجھ کران کارناموں کی تصویر بگاڑنے کی کوشش کی گئی-
امریکی صدر ٹرمپ نے بتایاکہ انہوں نے اپنے چینی ہم منصب سے ٹیلیفونک رابطہ کرکے کورونا وائرس کے خلاف تعاون کا اصولی فیصلہ کرلیاہے لیکن حقیقی تعاون جی 20 کے سربراہ اجلاس کے بعد شروع ہوا-
امریکہ اورچین کے رہنماؤں نے سربراہ اجلاس سے خطاب کیا تھا یہ اجلاس بین الاقوامی جدوجہد کے بڑے فریم کےتحت منعقد کیاگیا- سربراہی شاہ سلمان بن عبدالعزیز نےکی- اجلاس سعودی عرب کی درخواست پر ہوا- جی 20 کا اصل اجلاس مقررہ وقت پر اب سے سات ماہ بعد ہوگا-

یہ وبا دنیا کے ہرعلاقےمیں موجود انسانوں کی سلامتی کے لیے خطرہ ہے-(فوٹو سوشل میڈیا)

کورونا سے نمٹنے کے لیے بین الاقوامی تعاون ناگزیر ہے کیونکہ یہ وبا نہ تو چین تک محدود ہے اور نہ ہی مغربی ممالک کی سازش ہے بلکہ یہ وبا دنیا کے ہرعلاقےمیں موجود انسانوں کی سلامتی کے لیے خطرہ ہے-
کئی حکومتوں نے جب یہ دیکھا کہ دروغ بیانی اور حقائق کو چھپانے کی بھاری قیمت انہیں چکانی پڑ گئی ہے تب انہوں نے اپنی پالیسی سے پسپائی اختیارکی- اب دنیا کے بیشتر ممالک کو یقین ہوچکا ہے کہ سرحدیں بند کرنے کے فیصلے ضروری ہیں- یہ ممالک پہلےاس قسم کے فیصلے لینے سے صرف اس لیے گریز کررہے تھے کہ کہیں دنیا کے سامنے ان کی یہ تصویر نہ چلی جائے کہ وہ الگ تھلگ ہوگئے ہیں یا محکمہ جاتی طورپرناکام ہوچکے ہیں-
 غیر ذمہ دارانہ پالیسی کا نتیجہ بھیانک شکل میں سامنے آیا- کورونا وائرس ایسے ممالک میں زیادہ بڑے پیمانے پر پھیل گیا جو اسے روکنے کے لیے سب سے کم دلچسپی ظاہر کررہے تھے- اسکا مطلب یہ نہیں کہ دیگر ممالک اس وائرس سے محفوظ ہیں-

جو حکومتیں مشکل فیصلے کرنے کی ہمت نہیں کرتیں وہ زیادہ بھاری قیمت چکائیں گی

ایران اب اپنے فیصلے اور طور طریقے تبدیل کرنے کی کوشش کررہا ہے حالانکہ وہ دو ماہ تک جھوٹی اطلاعات دیتا رہا- غرور کا مظاہرہ کرتا رہا- ملک میں سرگرمیوں پر پابندی کے فیصلے لینے سے انکار کرتا رہا- اب امریکہ نے کئی فوجی اڈوں سے اپنی افواج واپس بلا لی۔ کورونا کے خطرات سے نمٹنے کے لیے عراق سے اپنے سفارتکار بھی واپس بلالیے ہیں-
امریکی ایوان صدارت نے شروع میں کورونا وبا کو مضحکہ خیزانداز میں لیا اور پھرانہیں محسوس ہوا کہ یہ تو خود ان کے لیے حقیقی خطرہ ہے- صورتحال سے نمٹنےکے لیے اقدامات کیے- امریکہ کا معاملہ فیصلوں کے حوالے سے بڑاپیچیدہ اور مشکل ہے- امریکی وفاقی حکومت کے اختیارات محدود ہیں-
اس پیچیدہ صورتحال کے باوجود امریکہ کی حریف سیاسی پارٹیوں نے اپنے اختلافات کو پس پشت ڈال کر کانگریس کے سائبان تلے کورونا سے نمٹنے کا مشترکہ فیصلہ کرلیا- دونوں پارٹیوں نے ملک کو اقتصادی اور صحت بحران سے بچانے کے لیے کئی فیصلے کیے- امریکہ کی دونوں پارٹیوں کو یقین ہوگیا کہ غرور یا مسابقت سےکوئی فائدہ نہیں ہوگا-
جو حکومتیں حقیقی اعدادوشمار کے اظہار کی جرات نہیں رکھتیں جو حکومتیں مشکل فیصلے کرنے کی ہمت نہیں کرتیں وہ دیگر ملکوں کے مقابلے میں زیادہ بھاری قیمت چکائیں گی وجہ ظاہر ہے کہ ابھی تک ہمیں تو اس وقت یہ پتہ ہے کہ یہ بحران کتنا گہرا ہے اور کب تک چلے گااور نہ ہی یہ پتہ ہے کہ کیا یہ وبا  پلٹ کر بھی آئے گی-
لہذا حقیقت حال کا اظہار تمام ممالک کے وسیع تر مفاد میں ہے خصوصا محدود وسائل والے ممالک کا مفاد اسی میں ہے کیونکہ عالمی ادارہ صحت انہیں اپنے امکانات کے دائرے میں دوائیں بھی فراہم کرسکتا ہے اور دیگرسہولتیں بھیاسی لیے بعض ممالک نے یہ فیصلہ کرلیا کہ انہیں اپنی تصویر بچانے کے بجائے اپنے شہریوں کی سلامتی کا فیصلہ لینا ہوگا-

شیئر: