Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

نیمار کا 10 لاکھ ڈالر کا عطیہ

نیمار دنیا کے تیسرے سب سے زیادہ معاوضہ لینے والے فٹبالرہیں (فوٹو عرب نیوز)
برازیل کے ٹیلی ویژن سسٹم (ایس بی ٹی) کے مطابق دنیا کے مشہور فٹبالر نیمار جونیئر نے اپنے آبائی علاقے میں کورونا وائرس کے اثرات سے نمٹنے کے لیے 10 لاکھ ڈالر کی رقم عطیہ کی ہے۔
ایس بی ٹی کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پیرس سینٹ جرمین فٹبال کلب کی جانب سے کھیلنے اور  دنیا کے تیسرے سب سے زیادہ معاوضہ لینے والے فٹبالر نے اس رقم کا کچھ حصہ اقوام متحدہ میں بچوں کے فنڈ کی تنظیم(یونیسف) کو عطیہ کیا  اور باقی رقم برازیل کے ٹی وی پریزینٹر اور اپنے دوست لوسیانو ہک کی جانب سے شروع کیے گئے خیراتی فنڈ میں جمع کرادی۔

رقم کا کچھ حصہ اقوام متحدہ کی تنظیم(یونیسف) کو عطیہ کیا (فوٹو گیٹی امیجز)

نیمار کے پریس آفس نے اس بارے میں یہ کہہ کر تبصرہ کرنے سے  انکار کر دیا کہ’ ہم کبھی بھی عطیات یا رقم کے بارے میں بات نہیں کرتے۔‘
28 سالہ نیمار  نے پیرس سینٹ جرمین فٹبال کلب کی ٹیم کے ساتھی کھلاڑی کِلیان ایمبپے کی پیروی کی جنھوں نے گذشتہ ماہ ایک فرانسیسی خیراتی ادارے کو کورونا وائرس کے اثرات سے لڑنے میں بڑی رقم عطیہ کی تھی۔
 

نیمار نے ٹیم کے ساتھی کھلاڑی کِلیان ایمبپے کی پیروی کی (فوٹو الشرق الاوسط)

برازیل میں 2022 کے صدارتی انتخابات کے لیے ایک ممکنہ امیدوار لوسیانو ہک نے ریوڈی جنیرو کے علاقوں خاص طور پر کورونا وائرس سے متاثرہ علاقوں میں غریب افراد کی مدد کے لیے اپنا فنڈ شروع کیا ہے۔
یہ واقعہ اس وقت پیش  جب زیادہ معاوضہ لینے والے فٹبالروں کو کورونا بحران کے دوران اپنی تنخواہوں سے کچھ حصے سے دستبردار ہونے کے لیے دباؤ کا سامنا کرنا پڑا۔
واضح رہے کہ کورونا کی وبا نے  پوری دنیا میں کھیلوں کی سرگرمیوں کو روک دیا ہے اور کچھ فٹبال کلبوں کو اپنے عملے کو ادائیگی کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔
نیمار  ریو سے باہر ایک قصبے منگارتبیبہ میں اپنے لگژری ولا میں رہ رہے ہیں۔ انہیں گذشتہ ہفتے اس وقت  تنقید کا سامنا کرنا پڑا جب انہوں نے ساحل سمندر پر والی بال کورٹ میں دوستوں کے ایک گروپ کے ساتھ آرام کرتے ہوئے تصاویر بنوائیں حالانکہ اسی وقت دنیا کی آدھے سے زیادہ آبادی جس میں برازیل کے بہت سے لوگ بھی شامل ہیں، کورونا سے بچاؤ کے لیے گھروں میں رہنے پر مجبور ہیں۔
ان کی پریس ٹیم کے مطابق نیمار کسی نئے آنے والے سے میل ملاقات نہیں کر رہے اور مکمل طور پر ایک ایسے گھر میں ان لوگوں کے قرنطینہ میں ہیں جو فرانس سے ان کے ساتھ یہاں آئے تھے۔

شیئر: