Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

حکومت کچھ نہیں کر رہی: سپریم کورٹ

چیف جسٹس نے کہا کہ انہیں اپنی بیوی کے چیک اپ کے لیے ایک بڑا ہسپتال کھلوانا پڑا (فوٹو: فیس بک)
پاکستان کی سپریم کورٹ نے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں تمام ہسپتالوں کی او پی ڈیز بند کرنے پر معاون خصوصی ظفر مرزا کی اہلیت پر سوال اٹھاتے ہوئے او پی ڈیز کی بندش سے متعلق رپورٹ کل طلب کر لی ہے۔ 
چیف جسٹس آف پاکستان گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ انہیں اپنی اہلیہ کو چیک کرانے کے لیے ایک بہت بڑا ہسپتال کھلوانا پڑا۔
پیر کو چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی لارجر بینچ نے قیدیوں کی رہائی کے اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل پر سماعت کی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ معاملہ صرف قیدیوں کی رہائی کا نہیں بلکہ یہ بھی دیکھنا ہے حکومت کورونا سے کیسے نمٹ رہی ہے۔
'صرف میٹنگ پر میٹنگ ہو رہی ہیں۔ کچھ بھی کام نہیں ہو رہا ہے۔ اسلام آباد میں کوئی ایسا ہسپتال نہیں جہاں میں جا سکوں۔ ملک میں صرف کورونا کے مریضوں کا علاج ہو رہا ہے۔'
چیف جسٹس نے مزید کہا کہ نجی کلینکس اور ہسپتال بھی بند پڑے ہیں۔ 'یہ ملک میں کس طرح کی میڈیکل ایمرجنسی نافذ کی ہے۔ ہر ایک ہسپتال اور کلینک لازمی کھلا رہنا چاہیے۔ وفاق تو کچھ کر ہی نہیں رہا۔'
سماعت کے دوران اٹارنی جنرل نے کہا کہ وفاق بھرپور طریقے سے اقدامات کر رہا ہے۔ ہسپتالوں کی او پی ڈیز بندش اور ان کو فعال کرنے سے متعلق کل جواب جمع کرا دیں گے۔
چیف جسٹس نے اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ 'آپ لوگوں کو  پیسے لینے کا عادی بنا رہے ہیں۔ لوگوں کے بنیادی حقوق کا تحفظ ہماری ذمہ داری ہے۔'

سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ جیلوں میں نئے ضوابط بنانے کی ضرورت ہے (فوٹو: پنجاب پولیس)

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ 'ڈاکٹر ظفر مرزا صاحب کی کیا اہلیت، قابلیت ہے؟ بس روزانہ کی بنیاد پر ڈاکٹر ظفر مرزا صاحب کی پروجیکشن ہو رہی ہے۔'
سماعت کے دوران جسٹس عمر عطا بندیال نے سوال اٹھایا کہ کیا عملی طور پر اقدامات این ڈی ایم اے (نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی) نے کرنا ہیں؟ جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ این ڈی ایم اے کے ذمے چیزوں کا حصول اور تقسیم ہے۔
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا 'کے پی اور سندھ حکومتیں صرف پیسہ مانگ رہی ہیں؟ دل، شوگر اور دیگر بیماریوں کے مریض اب کہاں سے علاج کرائیں؟  دو کمروں کے گھروں میں10، 10 لوگ رہتے ہیں، لوگ تین چار دن شکلیں دیکھیں گے پھر ایک دوسرے کو ہی کھانے لگیں گے۔ عوام کے لیےمختص کیے گئے اربوں روپے کہاں خرچ ہو رہے کچھ معلوم نہیں؟' 
چیف جسٹس نے حکم دیا کہ 'کل (منگل) تک عملی اقدامات پر مبنی جامع رپورٹ جمع کرائیں۔

سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ تفتان بارڈر پر قرنطینہ میں موجود تمام افراد کو سہولیات فراہم کی جائیں (فوٹو: ٹوئٹر)

'صوبوں کے وزرائے اعلی گھر بیٹھ کر احکامات جاری کر رہے ہیں۔ اس بات کا احساس ہے کہ کورونا نے سپر پاورز کو بھی ہلا کر رکھ دیا ہے۔ لوگوں کے ٹیسٹ کرنے کے لیے صوبوں کے پاس کٹس ہی نہیں ہیں۔ کے پی کو جاری ہونے والے 500 ملین آپس میں بانٹ دیے گئے، سب کا زور صرف مفت راشن تقسیم کرنے پر ہے۔' 
چیف جسٹس نے کہا کہ ٹی وی پر بیٹھ کر صرف ہاتھ دھونے اور گھر رہنے کا بتایا جا رہا ہے۔ تمام صنعتیں اور کاروبار پڑے ہیں۔ 'تفتان، چمن اور طورخم بارڈر پر قرنطینہ میں رکھے گئے لوگوں کے لیے تمام حفاظتی اقدام کریں۔ ان تینوں جگہوں پر لوگوں کو ہر طرح کی سہولیات فراہم کریں۔' 
قیدیوں کی رہائی سے متعلق ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل کے بارے میں اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ پنجاب کی ایک جیل میں کورونا وائرس کا مریض سامنے آیا ہے۔ 
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ 'ہمیں ان حالات میں تحفظ کے ضوابط بنانا ہوں گے۔ پولیس اور آرمی کی بیرک میں سینکڑوں لوگ رہتے ہیں، وہاں پر ضوابط کی پیروی کی جاتی ہے۔'

سپریم کورٹ نے تمام ہسپتال کھولنے کا حکم دیا ہے (فوٹو: فیس بک)

 چیف جسٹس نے کہا کہ 'ایڈووکیٹ جنرل صاحب آپ کا ذمہ دار عہدہ ہے، ہم اس بات کو دیکھیں گے کہ آپ نے اس کیس میں کیسی معاونت کی۔ ہم اپنے آرڈر میں آپ کا ذکر بھی کریں گے۔
عدالت نے کہا کہ قیدیوں سے متعلق آج سوموار کو ہی فیصلہ دیا جائے گا جبکہ باقی معاملات پر فیصلہ کل آئے گا۔ 

شیئر: