Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

دنگل جس کا دو دہائی انتظار کیا

گوچ اور ہیکنشمد گاما کا سامنا کرنے سے حفظ ماتقدم کے طور پر کترا رہے تھے
گاما پہلوان کا ستینولوئس زبشکو کے ساتھ مقابلہ 10 ستمبر 1910 کو لندن کے وائٹ سٹی سٹیڈیم میں طے پایا تھا۔ وہ دونوں اپنے عروج پر تھے اور برطانوی میڈیا کو ایک غیر معمولی مقابلے کی توقع تھی۔
گاما پہلوان اپنے سرپرست اعلیٰ پٹیالہ کے مہاراجہ کی فرمائش پر یورپ گئے تھے، جہاں انہوں نے مغرب کے عظیم پہلوانوں کو للکارا جن میں زبشکو کے نام سے مشہور پولش پہلوان ستنيسلو سيگنيويچ بھی شامل تھے۔
زبشکو اپنی خودنوشت میں لکھتے ہیں کہ ’پیٹیالہ کے مہاراجہ نے ’شیرِ پنجاب‘ کے نام سے مشہور پہلوان کو فرینک گوچ، جارج ہیکنشمڈ اور ستینسلوئس زبشکو کے ساتھ مقابلے کے لیے بیرون ملک بھیجا تھا۔ میرے خیال میں یہ ایک محض تشہیری حربہ تھا، اور اسے نظر انداز کر دیا۔‘  
غلام حسین بخش عرف گاما یورپی شائقین کے لیے ایک انجان نام تھا لیکن مشرق میں وہ ایک عظیم شخصیت کے طور پر جانا جاتا تھا، اور ان کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ انہوں نے ایک بار بھی شکست کھائے بغیر سینکڑوں پہلوانوں کو زیر کیا ہوا ہے۔
گوچ اور ہیکنشمد گاما کا سامنا کرنے سے حفظ ماتقدم کے طور پر کترا رہے تھے، اس دوران زبشکو نے گامے کا سامنا کرنے کی ہامی بھر لی اور اپنے حریف کو جائزہ لینا شروع کر دیا۔ جب انہوں نے گاما پہلوان کو امریکی پہلوان ڈاکٹر بینجمن رولر کو باآسانی شکست دیتے دیکھا تو وہ ہل کر رہ گئے۔
رولر، زبشکو کا پہلوانی میں ساتھی تھا۔ زبشکو لکھتے ہیں کہ ’میں اس کے قریب بھی نہیں تھا۔ گاما واقعی شیر پنجاب کہلوانے کا حق دار تھا۔ اس سے قبل میں نے ایسا جسمانی امتزاج نہیں تھا، چھاتی، بازوں، کمر اور ٹانگوں کے پٹھے اتنی خوبصورتی کے ساتھ تیار کیے گئے تھے۔‘
اگست 1910 میں رولر نے شرمناک شکست کے بعد، زبشکو نے کچھ مشق کا فیصلہ کیا اور شمالی انگلینڈ کے دیہی علاقے میں چلا گیا جہاں انہوں نے اپنے جسم کے نچلے حصے کو مضبوط بنانے پر توجہ دی جو کہ اس کا خیال تھا کہ گامے کے بھاری جسم کا سامنا کرنے کے لیے ضروری تھا۔ ’میں بہت اچھی فارم میں تھا۔ تمام سپورٹس میڈیا نے اس امر کو تسلیم کیا اور ایک بڑے مقابلے کی توقع ظاہر کی۔‘
آخر وہ دن آ گیا۔ جان بُل میگزین کے زیراہتمام اس مقابلے کو دیکھنے کے لیے ہزاروں تماشائی آئے، کچھ اخبارات کے مطابق ان کی تعداد ہزاروں میں تھی، بلاشبہ یہ ایک غیرمعمولی بات تھی - لیکن ایک لحاظ سے مایوس کن بھی۔ 

گاما کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ انہوں نے ایک بار بھی شکست کھائے بغیر سینکڑوں پہلوانوں کو زیر کیا

اخبار ڈیلی ٹیلی گراف نے اس مقابلے کے بارے میں لکھا: دو گھنٹے اور 35 منٹ کی مایوسی کا سوچا بھی نہیں جا سکتا،‘ سپورٹنگ لائف نے اسے ’سٹیڈیم میں ناکامی‘ قرار دیا جبکہ  ڈیلی نیوز نے لکھا کہ کیسے ’متنفر تماشائی‘ وہاں سے باہر نکلے۔
زبشکو اس مقابلے کو یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ’یہ مقابلہ تیسرے گھنٹے میں روک دیا گیا اور ہم نے اسے برابری پر ختم کرنا قبول کیا۔‘ وہ کہتے ہیں کہ ’یہ میچ کچھ زیادہ پرلطف نہیں تھا۔ ایسا اکثر ہوتا، جب حریف یکساں عمر، وزن یا اہلیت کے مالک ہوں۔
لیکن زبشکو نے اس بات کا ذکر نہیں کیا کہ ایک منٹ سے بھی کم وقت میں اسے گرا لیا گیا تھا اور اس نے پورا کھیل زمین پر دفاعی انداز اختیار کیے ہوئے گزارا۔
گاما پہلوان نے کئی دہائیوں کے بعد مصنف ڈاکٹر امیر علی غازی کو بتایا کہ ’میں جو بھی داؤ لگاتا وہ خود کو چھڑوا لیتا۔ تین گھنٹے تک وہ میرے نیچے رہا، لیکن اسے شکست نہیں ہوئی۔
زبشکو کی اس بے دلی سے کیے گئے مقابلے پر تضحیک کی گئی جبکہ گاما پہلوان کو ’ایک اناڑی‘ قرار دیا جانے لگا۔ دونوں پہلوان عوام کو کسی قسم کا لطف فراہم کرنے میں ناکام رہے۔  
لیکن یہ بڑی تعداد میں تماشائیوں کے لیے یا مغربی چیمپیئنز کی سرکس سے متاثرہ کشتیاں نہیں تھیں جن کے لیے گاما پنجاب سے لندن آئے تھے۔ وہ ایک حقیقی مقابلہ چاہتے تھے، اور یہ انہوں نے زبشکو میں پایا، لیکن یہ خیال بھی شکست کے خوف سے خالی نہیں تھا۔
اگلے ہفتے دوبارہ مقابلہ شروع ہوا۔
گاما کہتے ہیں کہ ’جب میرا نام پکارا گیا میں چھلانگ مار کر اکھاڑے میں اترا۔ پھر زبشکو کا نام پکارا گیا لیکن وہ وہاں کہیں بھی موجود نہیں تھا۔ تین یا چار بار نام پکارنے کے بعد میرا دائیں بازو فضا میں بلند کیا گیا اور مجھے فاتح قرار دے دیا گیا۔‘

زبشکو کے مطابق گاما واقعی شیر پنجاب کہلوانے کا حق دار تھا

گاما جان بُل چیمپیئن شپ بیلٹ کے ساتھ پٹیالہ واپس لوٹ آئے لیکن یقینی طور پر وہ مطمئن نہیں ہوں گے۔
اس مقابلے سے قبل زبشکو اپنے آبائی شہر چلے گئے تھے۔ وہ اپنی یاداشتوں میں لکھتے ہیں کہ ’مجھے اس مقابلے کا کوئی معاوضہ نہیں ملا تھا چنانچہ میں کراکوف واپس چلا گیا۔‘ انہوں نے اپنی آپ بیتی میں اس معاہدے کا حوالہ دیا جس میں اس مقابلے کے نتیجے سے قطع نظر انہیں گیٹ ٹکٹوں کا 25 فیصد معاوضہ دینے کا وعدہ کیا گیا تھا۔
انہوں نے ایک بار پھر ایک دوسرے کا سامنا کیا۔ پٹیالہ کے مہاراجہ جنہوں نے گاما پہلوان کو یورپ بھیجا تھا انہوں نے دونوں کے درمیان دوبارہ مقابلے کا انتظام کیا۔
اس وقت دونوں شہ زوروں کی عمر 50 سال کے لگ بھگ تھی، زبشکو ہیوی ویٹ ورلڈ چیمپیئن بن چکا تھا اور صرف ایسا وہی پہلوان تھا جس نے گامے کا سامنا کیا ہوا تھا لیکن شکست نہیں کھائی تھی۔ دوسری جانب گاما پہلوان تقریبا ریٹائر ہو چکے تھے کیونکہ کوئی پہلوان ان کا سامنا نہیں کرتا تھا۔
گاما پہلوان نے بتایا تھا کہ ’میں نے سوچا بھی نہیں تھا کہ زبشکو کبھی دوبارہ میرے ساتھ مقابلہ کرے گا۔ جب اس نے 20 سال کے بعد مجھے دوبارہ چیلنج کیا تو مجھے اس کی جرات کو دیکھ کر خوشی ہوئی اور میں نے بھی تیاری شروع کر دی۔‘
29 جنوری 1928 کو ہندوستان بھر سے تماشائی یہ کشتی دیکھنے کے لیے پٹیالہ آئے، ان میں کئی خودمختار ہندوستانی ریاستوں کے مہاراجہ بھی شامل تھے۔
گاما نے بتایا تھا کہ ’جب زبشکو اور میں اکھاڑے میں پہنچے تو بالکل سناٹا تھا۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ وہاں ہم دونوں کے علاوہ کوئی بھی نہیں۔ ہم دونوں نے ہاتھ ملایا۔ پھر اس نے اپنا چغہ اتار کر اپنے مینیجر کو دیا اور وہ میرے جانب بڑھا۔‘

غلام حسین بخش عرف گاما مشرق میں ایک عظیم شخصیت کے طور پر جانے جاتے تھے

1910 کی طرح اس بار بھی اکھاڑے میں قدم رکھنے کے چند لمحوں کے بعد زبشکو زمین پر تھا، لیکن اس بار یہ اس کی شکست تھی۔
ایک آخری معرکہ! گاما اپنے آپ کو تسلی دے سکتا تھا کہ اس کا اعزاز محفوظ ہے۔ زبشکو اس کے بعد پہلوانی سے ریٹائر ہوگئے۔
گاما پہلوان کہتے ہیں کہ ’سیکنڈز میں ہی میں نے اسے زمین پر گرا دیا اور تین منٹ تک اس کی چھاتی پر بیٹھا رہا۔ اس کے بعد مجھے اٹھنے کا کہا گیا۔ میں نے زبشکو سے دوبارہ ہاتھ ملایا اور مہاراجہ کو سلام کرنے گیا۔ مہاراجہ بہت خوش تھا۔‘
اس معرکے میں واحد شخص جو اس مقابلے سے ناخوش تھا وہ انگریز کنسٹرکٹر تھا جس نے پٹیالہ میں 1928 کی اس تاریخی کشتی کے لیے خصوصی طور پر اکھاڑہ تیار کیا تھا۔  اس نے گاما پہلوان سے شکوہ کیا تھا کہ ’تم نے سیکنڈز میں ہی اسے زیر کر لیا اور میری چھ ماہ کی محنت پر پانی پھیر دیا۔‘
گاما نے جواب دیا: ’اگر پلک چھپکتے ہی اسے زیر نہ کرتا تو اس میں کیا کاری گری رہ جاتی، یہی تو میری کاری گری تھی کہ اسے پتہ بھی نہیں چلا۔‘

یہ آرٹیکل پہلی بار  arabnews.pk میں شائع ہوا تھا۔

شیئر:

متعلقہ خبریں