Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’شیر پاکستان‘ کو بھی کورونا وائرس نگل گیا

حاجی محمد افضل شروع سے اپنے پھرتیلے داؤ پیج کی وجہ سے مشہور تھے
سابق اولمپیئن اور 'شیر پاکستان' حاجی محمد افضل پہلوان نیویارک میں کورونا وائرس کا شکار ہو کر انتقال کرگئے اور یوں پاکستان میں پہلوانی کے سنہری دور کا ایک روشن باب ہمیشہ کے لیے بند ہوگیا۔ 
چہرے پر سفید لمبی داڑھی، نہایت دھیمی طبیعت اور جسامت کے لحاظ سے دبلے پتلے حاجی محمد افضل کو دیکھ کر یہ گمان نہ ہوتا کہ جوانی کے دور میں یہ شخص کئی تنومند پہلوانوں کو اکھاڑے میں بچھاڑ چکا ہے۔ بطور پہلوان بھی یہی ان کی خوبی تھی کہ وہ جسمانی پھرتی سے اپنے حریف کو زیر کرنے میں کامیاب ہو جاتے تھے۔
حاجی محمد افضل پہلوان کا جنم لاہور میں ایک کشمیری بٹ خاندان میں سات اپریل 1939 کو ہوا تھا۔ ان کا تعلق ایک پہلوان خاندان سے تھا۔
اُن کا خاندان لاہور میں میوہ منڈی لاہور والے پہلوانوں کے نام سے شہرت رکھتا تھا۔ ان کے بھائیوں میں اسلم پہلوان اور اکبر پہلوان اور والد مہنی پہلوانی کا روشن باب ہیں۔
حاجی محمد افضل پہلوان کے بڑے بھائی اسلم پہلوان بھی شیرپنجاب رہ چکے ہیں، اور انہوں نے پہلوانی کے گر اپنے بڑے بھائی سے سیکھے تھے۔
بھائی اسلم پہلوان کی شاگری میں انہوں نے کئی نامور پہلوانوں کے ساتھ دو دو ہاتھ کیے، جن میں اکرم عرف اکی پہلوان شیرببر پسرامام بخش پہلوان رستم ہند، گوگا پہلوان پسرامام بخش پہلوان رستم ہند، اچھا پہلوان گوجرانوالیہ شیر پاکستان، راجوراکٹ پہلوان رستم ہلال استقلال سیالکوٹی، صدیق پہلوان پسرگونگا پہلوان رستم ہند سیالکوٹی، ضیا پہلوان رستم گوجرانوالہ، خالو پہلوان چیمپیئن لاہوراوردیگر نامورپہلون شامل ہیں۔
پہلوانی کا شوق رکھنے والے افراد پہلوانی دفعوں کے بارے میں خوب جانتے ہیں۔ تقسیم ہند اور قیام پاکستان کے بعد لاہور میں دو مشہور دفعیں تھیں یعنی پہلوانوں کے اکھاڑے دو گروہوں میں بٹے ہوئے اور دونوں کے مابین اکثر کانٹے کا مقابلہ رہتا تھا۔

’مخالفت کے باوجود حاجی افضل کے خاندان کے بھولو برادرن کے ساتھ نہایت اچھے تعلقات تھے‘

حاجی محمد افضل کے شاگرد پہلوان عثمان مجید بلو  نے اس بارے میں اردو نیوز کو بتایا کہ حاجی افضل پہلوان کا تعلق نورے والا دف سے تھا جبکہ گاما پہلوان اور امام بخش پہلوان اور ان کے بیٹوں بھولو بردران کا تعلق کالو والیہ دف سے تھا۔
ان دونوں دفوں کے درمیان کئی تاریخی دنگل ہوئے۔ 1960 کی دہائی میں بھولو برادران کے اکرم پہلوان عرف اکی پہلوان کا حاجی افضل پہلوان کے ساتھ لاہور کے منٹو پارک میں دنگل ہوا تھا۔ اس میں اکرم پہلوان فاتح رہے تھے۔
عثمان مجید بلو بتاتے ہیں کہ پہلوانی کے میدان میں ایک دوسرے کے ساتھ سخت مخالفت کے باوجود حاجی افضل کے خاندان کے بھولو برادرن کے ساتھ نہایت اچھے تعلقات تھے۔ ان کی بعد میں رشتے داری بھی قائم ہوئی۔
بھولو پہلوان کے بیٹے ناصر بھولو کی شادی حاجی افضل پہلوان کے بڑے بھائی اکبر پہلوان کی بیٹی سے ہوئی تھی جبکہ اکرم پہلوان کی بیٹی کی شادی حاجی افضل کے بھتیجے سے ہوئی۔

1960 میں دور جوانی میں حاجی محمد افضل نے اپنی شناخت بنائی

1960 کی دہائی پاکستان میں پہلوانی کے دور کو سنہری حروف میں لکھا جاتا ہے۔ حاجی محمد افضل اسی دور میں نوجوانی میں پہلوانی میں اپنی شناخت بنائی۔
انہوں نے 1964 میں ٹوکیو اولمپکس میں پاکستان کی نمائندگی کی، ان کھیلوں میں پاکستان کی جانب سے کل سات پہلوانوں نے شرکت کی لیکن بدقسمتی سے کوئی تمغہ حاصل نہ ہو سکا۔
حاجی محمد افضل شروع سے اپنی پھرتیلے داؤ پیج کی وجہ سے مشہور تھے۔ وہ زیادہ بھاری بھرکم نہیں تھے۔ اولمپکس مقابلوں میں ان سے بے حد توقعات وابستہ تھیں لیکن قسمت نے ان کا ساتھ نہ دیا۔
اولمپکس مقابلوں میں انہوں نے 25 سال کی عمر میں ویلٹرویٹ کیٹیگری (78 کلوگرام) فری سٹائل کشتی میں حصہ لیا تھا۔  پہلے راؤنڈ میں ہنگری کے ریسلر سے شکست کے بعد دوسرے راؤنڈ میں شمالی کوریا اور تیسرے راؤنڈ میں بلغارین حریف کو شکست دینے کے بعد چوتھے راؤنڈ کے لیے کوالیفائی کر لیا۔ چوتھے راؤنڈ میں ان کا مقابلہ ایرانی حریف محمد علی صنعتکارن سے تھا لیکن بدقسمتی سے زخمی ہونے کے باعث وہ مقابلہ جاری نہ رکھ سکے اور ایرانی ریسلر کو فاتح قرار دے دیا گیا۔

ایوب خان نے حاجی محمد افضل کو ’شیر پاکستان‘ کا خطاب دیا تھا

تاہم ملک کے لیے خدمات کی عوض انہوں اس وقت کےفوجی صدر جنرل ایوب خان کی جانب سے ’شیر پاکستان‘ کا خطاب دیا گیا جو تادم مرگ ان کے نام کا حصہ رہا۔
حاجی محمد افضل پہلوان نے بڑھتی ہوئی عمر کے ساتھ ساتھ پہلوانی کا ساتھ نہ چھوڑا اور بزرگ عمری میں بھی اکھاڑے میں نوجوانوں کے ساتھ ورزش کرتے تھے۔ لاہور میں پنجاب یونیورسٹی میں ایک اکھاڑہ ان کے نام سے بھی منسوب ہے جہاں انہوں نے مستقبل کے پہلوانوں کو پہلوانی کے گر سکھائے۔
پاکستان میں موجود دور کے‌صف اول کے پہلوان انعام بٹ نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے انہیں خراج تحسین پیش کیا: ’آج کشتی کے سنہری دور کا ایک اہم باب بند ہوگیا ہے۔ حاجی محمد افضل کی پاکستان میں پہلوانی کے لیے خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی کیونکہ انہوں نے نئی نسل کے ساتھ پہلوانی کا رشتہ قائم رکھا اور اپنے شاگردوں کو پہلوانی کے وہ گر سکھائے کہ انہوں نے دنیا بھر میں پاکستان کا نام روشن کیا۔
سابق رستم پاکستان عثمان مجید بلو کا کہنا تھا کہ ’حاجی محمد افضل کا شمار نہایت ہی نیک سیرت، شریف النفس اور بڑے ہی با ادب پہلوانوں میں ہوتا تھا جنہوں نے کئی یادگار کشتیاں لڑیں اور اپنے شاگردوں کو بھی مقابلے کے لیے تیار کیا۔

حاجی محمد افضل کے شاگرد پہلوانوں کی بھی ایک لمبی فہرست ہے

حاجی محمد افضل کا انتقال امریکہ میں ہوا اور ان کی تدفین بھی وہیں کی جائے گی۔ ان کے چار بیٹے مدثر بٹ، مزمل بٹ، مبشر بٹ اور مون بٹ ہیں جن میں سے تین امریکہ اور ایک لاہور میں رہائش پذیر ہیں۔
ان کے شاگرد پہلوانوں کی بھی ایک طویل فہرست ہے اور یہ کہنا بے جا نہیں ہوگا کہ حاجی محمد افضل پہلوان نے اپنے پیچھے پہلوانی کا وہ دیا روشن کیا جو آنے والے کئی برسوں تک ملک کا نام روشن کرتا رہے گا۔
ان کے نامی گرامی شاگردوں میں بشیر بھولا بالا پہلوان رستم پاکستان رستم پاک و ہند،عثمان مجید بلو پہلوان رستم پاکستان و ہند، بلال اعوان پہلوان رستم لاہور، طیب رضا اعوان اور کالا پہلوان قصائی رستم لاہور شامل ہیں۔

شیئر: