'ایرانی فوجیوں نے کہا دریا میں نہ کودے تو گولی مار دیں گے'
'ایرانی فوجیوں نے کہا دریا میں نہ کودے تو گولی مار دیں گے'
اتوار 3 مئی 2020 15:01
افغان شہری شیر آغا کے مطابق 57 شہریوں میں سے کم از کم 23 لاشوں کو دریا میں پھینکا گیا (فوٹو: نیو یارک ٹائمز)
افغان حکام نے مغربی صوبے ہرات کے ایک دریا میں ان تارکین وطن کی تلاش شروع کر دی ہے جن کے بارے میں یہ رپورٹس سامنے آئی تھی کہ ان کو ایران کے سرحدی محافظوں نے ملک میں داخل ہونے سے روکنے کے لیے تشدد کر کے دریا میں پھینک دیا تھا۔
افغانستان کی وزارت خارجہ نے سنیچر کو کہا تھا کہ اس معاملے کی تحقیقات کا آغاز کر دیا گیا ہے جبکہ افغان صدارتی محل کے ایک عہدیدار کے مطابق ابتدائی معلومات سے معلوم ہوا ہے کہ کم از کم 70 افغان شہری ہرات صوبے سے متصل سرحد سے ایران میں داخل ہونے کی کوشش کر رہے تھے جن کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور دریائے ہری رود میں پھینک دیا گیا۔
ہرات کے ضلعی ہسپتال کے ڈاکٹروں کے مطابق ہسپتال میں کچھ افغانوں کی لاشیں لائی گئی ہیں۔
ہسپتال کے سربراہ عارف جلیلی نے کہا ہے کہ ’پانچ لاشوں کو ہسپتال منتقل کیا جا چکا ہے جن میں سے چار افراد ڈوب کر ہلاک ہوئے۔‘
تاہم ہرات میں ایرانی کونسل خانے نے ان الزامات کی تردید کی ہے۔
اپنے ایک بیان میں ایرانی قونصل خانے کا کہنا تھا کہ ایرانی بارڈر گارڈز نے کسی افغان شہری کو گرفتار نہیں کیا۔
کابل میں ایرانی سفارت خانے کے اہلکار فوری طور پر اس معاملے پر تبصرے کے لیے دستیاب نہیں تھے۔
نور محمد نے بتایا کہ وہ ان 57 افغانوں میں شامل تھے جنہیں سنیچر کو ایرانی سرحدی محافظوں نے اس وقت پکڑا جب وہ روزگار کی تلاش کے لیے ایران داخل ہونے کی کوشش کر رہے تھے۔
’ہم پر تشدد کے بعد ایرانی حکام نے ہمیں دریا میں پھینکا۔‘
شیر آغا بھی ان متاثرین میں شامل تھے، ان کا کہنا ہے کہ دریا میں پھینکے گئے 57 افراد میں سے کم از کم 23 ہلاک ہوگئے تھے۔
شیر آغا نے مزید کہا کہ ’ایرانی فوجیوں نے ہمیں خبردار کیا کہ اگر ہم نے خود سے پانی میں چھلانگ نہ لگائی تو ہمیں گولی مار دی جائے گی۔‘
مقامی افغان حکام کے مطابق ایرانی سرحدی محافظوں کی جانب سے پہلے بھی افغان شہریوں کو تشدد کا نشانہ بنایا جا چکا ہے۔
ہرات کے گورنر سید واحد قتالی نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر ایرانی حکام کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے ’ہمارے لوگ صرف کچھ نام نہیں ہیں جن کو آپ نے دریا میں پھینک دیا۔ ایک دن ہم بدلہ لیں گے۔‘