Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

یوٹیوبرز کے لیے حکومتی سہولیات کیا؟

حکومت یوٹیوب چینل چلانے والے افراد کو بذریعہ پی آئی ڈی رجسٹر کرے گی (فوٹو: شٹرسٹاک)
گذشتہ ماہ وزیراعظم عمران خان کی چند یوٹیوبرز سے ملاقات کے بعد سابق معاون خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے کہا تھا کہ 'حکومت یوٹیوب اور ڈیجیٹل میڈیا کو رجسٹر کرکے سرکاری اشتہارات دے گی' تا ہم وزیراعظم کے فوکل پرسن برائے ڈیجیٹل میڈیا ڈاکٹر ارسلان خالد نے اردو نیوز کو بتایا کہ 'حکومت یو ٹیوب صحافیوں کو اشتہار دینے کا ارادہ نہیں رکھتی البتہ انہیں رجسٹر کر کے حکومت تک رسائی دی جائے گی۔'
انہوں نے بتایا کہ 'حکومت کی جانب سے سوشل میڈیا انفلوئنسرز کو تشہیری مواد کی تخلیق کے لیے براہ راست معاوضہ دیا جائے گا۔'

 

ڈاکٹر ارسلان کا کہنا تھا کہ 'شاید سابق معاون خصوصی ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کو سمجھنے میں غلطی ہوئی ہے کیونکہ یو ٹیوب پر حالات حاضرہ کا پروگرام کرنے والے صحافیوں کو حکومتی اشتہارات کیسے دیے جا سکتے ہیں؟'
یاد رہے کہ سابق معاون خصوصی ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے 24 اپریل کو وزیراعظم سے یوٹیوبرز کے وفد کی ملاقات کے بعد اپنی ایک نیوز کانفرنس میں کہا تھا کہ 'حکومت نئی پالیسی کے تحت پہلی مرتبہ سوشل میڈیا اور ڈیجیٹل میڈیا کواشتہارات دینے جا رہی ہے، جس طرح اخبارات اور ٹی وی پر اشتہارات چلتے ہیں اسی طرح یوٹیوب اور ویب سائٹس پر حکومت اشتہارات دے گی۔'
ڈاکٹر ارسلان خالد نے اردو نیوز کو بتایا کہ 'یوٹیوب پر اپنا چینل چلانے والے افراد کو وزارت اطلاعات بذریعہ پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ (پی آئی ڈی) رجسٹر کرے گی اور انہیں بھی حکومتی تقریبات، نیوز کانفرنسز اور دستاویزات تک عام صحافیوں کی طرح رسائی دی جائے گی۔'
ان سے پوچھا گیا کہ ’رسائی‘ سے مراد دوسرے شہروں میں حکومتی تقریبات یا وزیراعظم کے بیرون ملک دوروں کے لیے فضائی ٹکٹ بھی ہے تو انہوں نے اس کی سختی سے تردید کرتے ہوئے کہا کہ 'بیرون ملک دوروں کے لیے تو مین سٹریم میڈیا کو بھی حکومتی خرچ پر ساتھ نہیں لے جایا جاتا۔'

ڈاکٹر ارسلان کے مطابق حکومت کے ساتھ رجسٹرڈ یوٹیوبرز کو رسائی ملے گی (فوٹو: سوشل میڈیا)

ڈاکٹر ارسلان نے واضح کیا کہ 'رسائی سے مراد صرف ان کے کارڈ بنانا، ان کو سرکاری طور پر تسلیم کرنا اور ان کو خبروں اور نیوز کانفرنسز میں شرکت کی اجازت دینا ہوگا۔'
'وزیراعظم سے ملاقات میں یوٹیوبرز نے شکوہ کیا تھا کہ ان تک سیکنڈ ہینڈ اطلاعات ٹی وی وغیرہ کے ذریعے پہنچتی ہیں، چنانچہ وہ اپنے تجزیے اور تبصرے وغیرہ میں مشکلات کا شکار ہوتے ہیں اس لیے ان کے مطالبے پر حکومت نے فیصلہ کیا کہ انہیں براہ راست رسائی دی جائے۔'

کن یوٹیوبرز کو رجسٹر کیا جائے گا؟

ڈاکٹر ارسلان خالد نے کہا کہ 'رسائی صرف حکومت کے ساتھ رجسٹرڈ یوٹیوبرز کو ملے گی اور رجسٹریشن کے لیے ایک ضابطہ کار بنایا جا رہا ہے جس کا ڈرافٹ یوٹیوبرز کے ساتھ شیئر کیا جا رہا ہے تاکہ اسے مشاورت کے ساتھ حتمی شکل دی جا سکے۔'
ان کا کہنا تھا کہ 'طریقہ کار میں مختلف تجاویز زیرغور ہیں جن کی بنیاد پر رجسٹریشن کی اہلیت جانچی جائے گی تاہم سب سے اہم مواد یا کنٹینٹ کا معیار ہے۔'
'رجسٹریشن کے لیے اہلیت جانچتے ہوئے رپورٹنگ سٹائل نہیں دیکھا جائے گا یا یہ کہ حکومت پر تنقید نہ کی جائے، بلکہ دیکھا یہ جائے گا کہ یوٹیوبر نازیبا یا غیر اخلاقی زبان تو استعمال نہیں کر رہا، ایشوز کے بجائے خواتین کے لباس کے رنگ کو تو زیر بحث نہیں لا رہا۔ اس طرح کی چیزیں دیکھی جائیں گی۔'

ڈاکٹر ارسلان کے مطابق ضابطہ کار کو حتمی شکل دینے میں چند ماہ لگ سکتے ہیں (فوٹو: ٹوئٹر)

'اس کے علاوہ یہ بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ یوٹیوبر کتنے عرصے سے چینل چلا رہا ہے، اس کے کتنے سبسکرائبرز ہیں وغیرہ۔ یوٹیوبرز کو انفارمیشن سروس اکیڈمی کے ذریعے تربیت بھی دی جائے گی۔'
ڈاکٹر ارسلان کا کہنا تھا کہ 'ضابطہ کار کو حتمی شکل دینے میں چند ماہ بھی لگ سکتے ہیں کیونکہ حکومت چاہتی ہے کہ یوٹیوبر زیادہ تر خود ہی خود کو ریگولیٹ کریں اور سارا کام مشاورت سے کیا جائے۔'

مواد تخلیق کرنے والے سوشل میڈیا انفلوئنسرز کی سپانسرشپ

وزیراعظم کے فوکل پرسن کا کہنا تھا کہ 'انفرادی یوٹیوب تجزیہ کاروں کو اشتہارات نہیں دیے جا رہے تاہم مواد کی تخلیق کرنے والے سوشل میڈیا پر مقبول افراد جن کو عام طور پر انفلوئنسرز کہا جاتا ہے کو براہ راست ادائیگی کی جائے گی۔'
انہوں نے کہا کہ 'مثال کے طور پر پاکستان میں سیاحت کے فروغ پر کوئی شخص ڈاکومینٹری یا وی لاگ وغیرہ بناتا ہے تو اسے وزارت اطلاعات پہلے اشتہاری ایجنسیوں کے ذریعے ہائر کرتی تھی جس میں سے زیادہ تر پیسے ایجنسیوں کو جاتے تھے اور مواد کے خالق کو تھوڑا سا حصہ ملتا تھا۔ اب نئی پالیسی کے تحت حکومت براہ راست انفلوئنسرز کو پروجیکٹ دے گی تاکہ مڈل مین کا کردار ختم کیا جا سکے۔'

یوٹیوب کو ریگولیٹ کرنا مشکل ہے

اردو نیوز کے ساتھ بات کرتے ہوئے اسلام آباد کے صحافی اور یوٹیوبرعدیل وڑائچ کا کہنا تھا کہ 'وہ حکومت کی طرف سے یوٹیوبرز کی رجسٹریشن کے خلاف نہیں تاہم ان کے خیال میں اس کا میکنزم بنانا بہت مشکل ہے۔'
ان کا کہنا ہے کہ 'یوٹیوب کا اشتہارات کا اپنا نظام ہے جہاں ہر دیکھی جانے والی ویڈیوز پر گوگل کی طرف سے مونیٹائز چینل کو معاوضہ ملتا ہے مگر یوٹیوبر اگر اس پر اپنے یا حکومتی اشتہار چلائے تو اسے بھی یوٹیوب کی طرف سے معاوضہ ملنا بند ہو جائے گا۔ اس لیے کوئی یوٹیوبر نہیں چاہتا کہ حکومت اسے اشتہار دے۔'

یوٹیوبرز کے مطابق وہ رجسٹریشن کے خلاف نہیں تاہم اس کا میکنزم بنانا مشکل ہے (فوٹو: ٹوئٹر)

عدیل کا کہنا تھا کہ 'حکومتی اداروں کے پاس سوشل میڈیا اور ڈیجیٹل میڈیا کے چیلنج سے نمٹنے کے لیے استعداد کار کی کمی ہے۔' انہوں نے مثال دی کہ 'حال ہی میں سوشل میڈیا ریگولیشن جاری کیے گئے جن پر تنقید کے بعد انہیں معطل کرنا پڑا تھا۔'
'آپ اسلام آباد، کراچی اور لاہور والوں کو ریگولیٹ یا رجسٹر  کریں گے مگر کینیڈا اور برطانیہ والوں کو کیسے ریگولیٹ کریں گے؟'
 انہوں نے سوال کیا کہ 'حکومتی ادارے مین سٹریم میڈیا کی تربیت اور استعداد کار بڑھانے کے لیے بنے تھے مگر کیا وہ اس میں کامیاب ہو سکے ہیں کہ اب وہ یوٹیوبرز کی استعداد کار بہتر کریں گے؟

شیئر: