Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

انٹرنیٹ کی بندش: زیادہ شکایات انڈیا سے

رپورٹ کے مطابق انڈیا سے 40 مرتبہ انٹرنیٹ بندش کی شکایت کی گئی (فوٹو سوشل میڈیا)
سوشل نیٹ ورکنگ پلیٹ فارم فیس بک کی جانب سے کیمونٹی سٹینڈرڈز پر عملدرآمد سے متعلق ششماہی رپورٹ جاری کی گئی ہے جس میں انٹرنیٹ کی بندش، حکومتوں کی جانب سے مواد کو محدود کرنے، صارفین کا ڈیٹا مانگنے سمیت قابل نفرت، جنسی نوعیت کے اور جعلسازی پر مبنی مواد سے متعلق اقدامات کا احاطہ کیا گیا ہے۔
رپورٹ کے حوالے سے فیس بک کے نائب صدر برائے انٹیگریٹی گائے روزن کا کہنا ہے کہ گذشتہ چند سال ہم نے ٹولز، ٹیمیں اور ٹیکنالوجی بنانے میں لگائے تاکہ انتخابات کو مداخلت سے بچایا جائے، اپنی ایپلیکیشنز پر غلط معلومات کا پھیلاؤ روکا جائے اور لوگوں کو نقصان دہ مواد سے محفوظ رکھا جائے۔'
فیس بک کی رپورٹ کے مطابق گذشتہ چھ ماہ کے دوران حکومتوں کی جانب سے صارفین کا ڈیٹا مانگنے کی درخواستوں میں تقریباً 10 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ گذشتہ ششماہی رپورٹ کے مطابق ایک لاکھ 28 ہزار سے زائد مرتبہ حکومتوں نے صارفین کا ڈیٹا مانگا تھا جبکہ حالیہ رپورٹ کے مطابق یہ تعداد ایک لاکھ 40 ہزار سے زائد رہی۔ تقریبا 75 فیصد کیسز میں ڈیٹا فراہم کیا گیا ہے۔
فیس بک کی کیمونٹی سٹینڈرڈز انفورسمنٹ رپورٹ مئی 2020 کے مطابق سب سے زیادہ ڈیٹا دینے کی درخواستیں امریکہ کی جانب سے کی گئیں جبکہ انڈیا، یوکے، جرمنی اور فرانس باالترتیب دوسرے، تیسرے، چوتھے اور پانچویں نمبر پر رہے۔
امریکی حکومت کی جانب سے فیس بک کو 51 ہزار 121 درخواستیں موصول ہوئیں جو 2019 کی پہلی ششماہی کے مقابلے میں ایک فیصد زیادہ ہے۔
مواد پر پابندی کے حوالے سے موصول درخواستوں کے متعلق فیس بک کا کہنا تھا کہ 'اگر کسی ملک سے موصول ہونے والی شکایت مقامی قوانین کے خلاف ہو لیکن ہمارے پالیسی سٹینڈرز کی خلاف ورزی نہ ہوئی تو متعلقہ ممالک میں اس مواد تک رسائی بند کر دی جاتی ہے۔'

فیس بک کے مطابق ششماہی رپورٹ کے عرصے میں مواد کو محدود کرنے کی درخواستوں میں 11 فیصد کمی ہوئی ہے۔ گذشتہ ششماہی کی 17 ہزار 807 درخواستوں کے مقابلے میں اس بار 15 ہزار 826 درخواستیں موصول ہوئی ہیں۔
ان میں سے تقریباً 50 فیصد درخواستیں روس، پاکستان اور میکسیکو کی جانب سے موصول ہوئیں۔
رپورٹ کے مطابق پاکستان کی جانب سے مواد ہٹانے کے لیے دو ہزار 27 درخواستیں موصول ہوئیں۔ صارفین کے متعلق ڈیٹا کے لیے 2630 درخواستیں موصول ہوئیں۔
 

حکومتوں کی جانب سے انٹرنیٹ معطلی کا ذکر کرتے رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ چھ مختلف ملکوں میں 45 مرتبہ فیس بک سروسز متاثر کی گئی ہیں۔ سب سے زیادہ 40 مرتبہ انٹرنیٹ بندش سے متعلق شکایات انڈیا سے سامنے آئی ہیں۔ گذشتہ ششماہی میں 15 ملکوں کی جانب سے 67 مرتبہ ایسا کیا گیا تھا۔
کاپی رائٹ، ٹریڈ مارک اور جعلسازی سے متعلق اعدادوشمار کا ذکر کرتے ہوئے رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 31 لاکھ 39 ہزار سے زائد بار مواد کو ہٹایا گیا، اس کے لیے پانچ لاکھ 76 ہزار سے زائد شکایات موصول ہوئی تھیں۔ ان میں ٹریڈ مارک کی بنیاد پر دو لاکھ 84 ہزار سے زائد اور جعلسازی کی بنیاد پر 11 لاکھ 40 ہزار سے زائد بار مواد ہٹایا گیا۔

نفرت انگیزی کی منظم کوششوں اور خطرناک تنظیموں کے حوالے سے کیے گئے اقدامات بھی رپورٹ کا حصہ بنائے گئے ہیں۔ 
فیس بک کے مطابق 2020 کی پہلی سہ ماہی میں 47 لاکھ بار ایسا مواد ہٹایا گیا ہے جو نفرت انگیز تھا۔
فیس بک کے مطابق روزانہ کی بنیاد پر جعلی اکاؤنٹس بنانے کی لاکھوں کوششیں ناکام بنائی جاتی ہیں۔ اکتوبر 2019 سے مارچ 2020 کے دوران 2.8 ارب جعلی اکاؤنٹس معطل کیے گئے ہیں۔ ان میں تقریباً 99 فیصد اکاؤنٹس وہ تھے جنہیں کسی کی جانب سے رپورٹ کیے جانے سے قبل ہی معطل کر دیا گیا تھا۔

فیس بک نے واضح کیا ہے کہ رپورٹ کا ڈیٹا چونکہ مارچ کے مہینے تک کا ہے اس لیے اس میں کورونا وائرس سے پیدا شدہ وبائی صورتحال کے دوران کیے گئے اقدامات کا مکمل احاطہ نہیں کیا گیا ہے۔ توقع ہے کہ آئندہ رپورٹ میں ان تبدیلیوں کے اثرات کو پرکھا جا سکے گا۔
فیس بک نے تسلیم کیا ہے کہ گذشتہ سات ہفتوں کے دوران وہ صارفین کو مواد یا اکاؤنٹ ریموو کرنے کے بعد اپیل کا آپشن نہیں دے رہے ہیں۔ 'نقصان دہ مواد کو ہٹانے کے لیے چونکہ ہم نے اپنی کوششوں کو ترجیحی عمل کا حصہ بنایا اس لیے یہ اندازہ بھی نہیں ہو سکتا کہ اس عرصے کے دوران نقصان دہ مواد کتنے عرصے تک موجود رہا۔'

مواد ہٹانے کے مراحل کا ذکر کرتے ہوئے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 'جب (کورونا کی وجہ سے) لوگوں کو عارضی طور پر گھر بھیجنا پڑا تو ہم نے خود کار نظام پر اپنا انحصار بڑھایا اور زیادہ حساسیت رکھنے والے مواد کو ترجیح دی تاکہ ہماری ٹیم اس مدت کے دوران ایپس کو محفوظ رکھنے کے لیے فعال رہ سکے۔'
کورونا بحران کے دوران غلط معلومات کے تدارک کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ تقریباًً پانچ کروڑ مرتبہ مواد پر وارننگ لیبل لگایا گیا۔ غلط معلومات کی نشاندہی کے لیے کنٹینٹ پاٹنرز کے تقریبا 7500 مضامین سے رہنمائی لی گئی۔
فیس بک کے مطابق اگر کسی پوسٹ پر وارننگ لیبل لگا ہو تو 95 فیصد کیسز میں صارفین اسے نہیں دیکھتے۔ یکم مارچ کے بعد سے ماسک، ہینڈ سینیٹائزر جیسی مصنوعات سے متعلق 25 لاکھ آرگینک مواد ہٹایا گیا ہے۔
فیس بک کے مطابق ’رپورٹ سے اس بات کا بھی اندازہ ہوگا کہ پالیسی کی خلاف ورزی کا ارتکاب کرنے والے مواد کو تلاش کرنے اور اسے ہٹانے کے لیے ٹیکنالوجی میں جدت کا کیا اثر ہوا ہے۔‘

رپورٹ میں نیا کیا ہے؟

فیس بک کی 12 اور انسٹاگرام کی 10 مختلف پالیسیز سے متعلق مواد رپورٹ کا حصہ ہے۔
انسٹاگرام کے ڈیٹا کو قابل نفرت مواد، برہنگی، جنسی سرگرمیوں، پرتشدد مواد اور ہراساں کرنے جیسے عنوانات کے تحت تقسیم کیا گیا ہے۔
پہلی بار انسٹاگرام سے ہٹائے جانے والے مواد سے متعلق کی گئی اپیلوں اور ان کے نتیجے میں یا خود معاملے کا جائزہ لے کر مواد ہٹانے سے متعلق فیصلوں میں تبدیلی کا ڈیٹا بھی رپورٹ کا حصہ بنایا گیا ہے۔
فیس بک کے مطابق رپورٹ میں ان کوششوں کا ذکر بھی ہے جن کے تحت کمپنی نے منظم انداز میں قابل نفرت مواد کو فیس بک اور انسٹاگرام سے ہٹایا ہے۔

  • واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ جوائن کریں

شیئر: