Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاک ایران سرحد پر باڑ لگانے کا منصوبہ، کام تیز کرنے کا فیصلہ

پاکستانی آرمی چیف کے مطابق فینسنگ سے دہشت گردوں اور سمگلروں کی نقل و حرکت روکنے میں مدد ملے گی(فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان اور افغانستان کی سرحد پر لگائی گئی خار دار تار کے مثبت اثرات سامنے آنے کے بعد پاکستان نے ایران کی سرحد سے ہونے والی دہشت گردی کی کارروائیوں پر قابو پانے اور سمگلنگ روکنے کے لیے سرحد پر خاردار تار لگانے کے منصوبے کو تیزی سے آگے بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے۔
وفاقی حکومت نے اس منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے درکار رقم جاری کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ یہ رقم دو مراحل میں جاری کی جائے گی۔ 
وزارت خزانہ کے حکام نے اردو نیوز کو بتایا ہے کہ دفاع ڈویژن کی جانب سے پاک ایران سرحد پر خاردار تار لگانے کے لیے پہلے مرحلے میں رواں مالی سال میں 3 ارب 28 کروڑ روپے جبکہ دوسرے مرحلے میں مالی سال 2020-21 میں 26 ارب 92 کروڑ روپے کی گرانٹ کی سفارش کی گئی تھی۔
وزارت خزانہ کی جانب سے رواں مالی سال میں 3 ارب 28 کروڑ روپے کی دستیابی سے آگاہ کیا جا چکا ہے۔ اقتصادی رابطہ کمیٹی نے اس رقم کی منظوری بھی دے دی ہے۔ 
950 کلومیٹر سرحد پر باڑ لگانے کے ساتھ 215 بارڈر قلعے بنائے جائیں گے اور نگرانی کا جدید نظام بھی نصب کیا جائے گا۔
گذشتہ ہفتے پاک ایران سرحد کے قریب دہشت گردوں کے حملے کے نتیجے میں ایک میجر سمیت چھ فوجی اہلکاروں کی ہلاکت کے بعد آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے اپنے ایرانی ہم منصب کو فون کر کے آگاہ کیا تھا کہ پاکستان نے پاک ایران بارڈر پر خاردار تار کا کام شروع کر رکھا ہے۔ جس کے لیے مشترکہ تعاون کو فروغ دینا ہوگا۔
آرمی چیف نے کہا تھا کہ سرحد کی فینسنگ سے دہشت گردوں اور سمگلروں کی نقل و حرکت کو روکنے میں مدد ملے گی۔

950 کلومیٹر باڑ کی تنصیب کے ساتھ نگرانی کا جدید نظام بھی نصب کیا جائے گا

آرمی چیف نے ایرانی ہم منصب سے مزید کہا تھا کہ پاکستان عدم مداخلت کی پالیسی پر گامزن ہے اور ہم برابری کی بنیاد پر خطے میں امن اور استحکام کے قیام کے خواہاں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ سرحد پر چوکیوں کو مزید فعال بنانا ہوگا۔
پاکستان کے دفتر خارجہ کی ترجمان عائشہ فاروقی نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’دہشت گردی پر قابو پانے اور سمگلنگ روکنے کے لیے پاک ایران سرحد کے ساتھ خار دار تار لگانے کا کام کچھ مہینوں سے جاری ہے۔ یہ کام پاک ایران بارڈر مینجمنٹ اور بارڈر میکنزم کا حصہ ہے۔ متعلقہ ادارے اس پر کام کر رہے ہیں۔‘
وزارت داخلہ کے حکام کے مطابق باڑ لگانے کے منصوبے کو علاقے کی اہمیت اور خطرے کے پیش نظر تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ 
اس وقت سرحد پر باڑ لگانے کا کام تیزی سے جاری ہے۔ سب سے پہلے مرحلے میں ان پہاڑی علاقوں میں خار دار تار لگانے کا کام شروع کیا گیا جو دہشت گردوں کے زیر استعمال آتے ہیں۔ 
حکام کا کہنا ہے کہ اس سال کے آخر تک پہلے مرحلے کا کام مکمل کر لیا جائے گا۔ 

ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق باڑ لگانے کا کام بارڈر مینجمنٹ اور بارڈر میکانزم کا حصہ ہے 

نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایک اہلکار نے بتایا کہ ابتدا میں ایران نے تار لگانے کے فیصلے کی مزاحمت کی تاہم بعدازاں اس نے بھی اس منصوبے کو فائدہ مند سمجھا۔ اس وقت پاکستان کی کوشش ہے کہ ایران اپنے علاقے میں بھی کچھ حصوں میں تار لگائے تاکہ دہشت گردوں کا راستہ روکنے کے ساتھ ساتھ پاکستان پر مالی بوجھ بھی کم ہو۔ اس حوالے سے بات چیت جاری ہے۔ 
وزارت داخلہ کے حکام کے مطابق سرحد پر خار دار تار کی تنصیب سے سٹریٹجک، دفاعی اور معاشی فوائد کے ساتھ ساتھ انسانی سمگلروں کے نیٹ ورک کا خاتمہ کرنے میں بھی مدد ملے گی۔ انسانی سمگلر ہر سال ہزاروں افراد کو ایران کے راستے غیرقانونی طور پر یورپ لے جاتے ہیں۔ اس عمل کے دوران کئی نوجوان مارے گئے جبکہ ہزاروں ترکی اور یورپ کی جیلوں میں قید ہیں۔
پاکستان نے ایران کے ساتھ سرحد پر خار دار تار لگانے کا فیصلہ گذشتہ سال کیا تھا۔
فروری میں ایران کے سرحدی علاقے میں پاسداران انقلاب پر ہونے والے حملے کے نتیجے میں ایران نے الزام عائد کیا تھا کہ دہشت گرد پاکستان سے آئے تھے۔ جس کے بعد پاکستان نے اپنی سرحد کو محفوظ بنانے کے لیے خار دار تار لگانے کا اعلان کیا۔ 

وزارت داخلہ کے مطابق سرحد پر خار دار تار کی تنصیب سے سمگلروں کے نیٹ ورک پر قابو پانے میں مدد ملے گی (فوٹو: اے ایف پی)

اس کے بعد اپریل میں پاکستان نیوی اہلکاروں کو بسوں سے اتار کر گولیاں مارنے کا واقعہ پیش آیا تھا۔ اس وقت وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے پریس کانفرنس میں بتایا تھا کہ واقعے میں ملوث دہشت گردوں کے ایران میں ٹھکانوں بارے ایران کو آگاہ کر دیا ہے۔ انہوں نے خار دار تار لگانے کے منصوبے کام شروع کرنے کا اعلان بھی کیا۔ 
اس واقعے کے بعد پاک ایران تعلقات کشیدہ رہے۔ وزیر اعظم عمران خان کے دورہ ایران کے دوران پاک ایران مشترکہ بارڈر فورس بنانے کا اعلان ہوا اور دونوں ممالک کے تعلقات معمول پر آئے۔ 

شیئر: