Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

'اقوام متحدہ ایران میں مظاہرین کے قتل کی تحقیقات کرے'

پیٹرول کی قیمتوں میں اضافے کے بعد ایران میں مظاہروں کا آغاز ہوا (فوٹو: اے ایف پی)
انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اقوام متحدہ پر زور دیا ہے کہ ایرانی سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں مظاہرین کے قتل کی تحقیقات کی جائیں۔
عرب نیوز کے مطابق گذشتہ برس پیٹرول کی قیمتوں میں دو سو فیصد تک اضافے کے اعلان کے بعد ایران میں 15 نومبر کو مظاہروں کا آغاز ہوا تھا۔
انسانی حقوق کی عالمی تنظیم نے کہا ہے کہ اس کے پاس ان مظاہروں میں تین سو چار افراد کے قتل ہونے کا ثبوت موجود ہے۔ اس بے رحم کارروائی میں قتل کیے گئے افراد میں 23 بچے اور 10 خواتین بھی شامل تھیں۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کہا ہے کہ اس کی تحقیق کے مطابق دو سو بیس افراد دو دن میں ہلاک ہوئے۔
'مظاہرین زیادہ تر سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں ہلاک ہوئے، ایران کی سکیورٹی فورسز کی جانب سے طاقت کا استعمال غیر قانونی تھا کیونکہ ایسا کوئی ثبوت نہیں کہ مظاہرین کے پاس اسلحہ تھا اور ایسا بھی نہیں تھا کہ ان سے کسی کو جان کو کوئی خطرہ تھا ۔‘
ایمنسٹی انٹرنیشنل کے فلپ لوتھر کا کہنا ہے کہ اس واقعے کو چھ ماہ گزر چکے ہیں اور متاثرین کے خاندان انصاف کے لیے جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں جبکہ ان خاندانوں کو حکام کی جانب سے ہراسیت اور دھمکیوں کا سامنا بھی کرنا پڑ رہا ہے۔
انسانی حقوق کی عالمی تنظیم کی تحقیقات کے مطابق آٹھ صوبوں کے 37 شہروں میں مظاہرین کو ہلاک کیا گیا۔
غربت سے دوچار تہران کے نواحی علاقوں میں 163 افراد ہلاک ہوئے، اس کے بعد اقلیتی آبادی والے صوبوں خوزیستان اور کرمانشاہ میں بالترتیب 57 اور 30 افراد ہلاک ہوئے۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق مظاہروں میں تین سو چار افراد ہلاک ہوئے (فوٹو: اے ایف پی)

مظاہروں میں تین سو چار افراد کی ہلاکت کے تصدیق کے بارے میں ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کہا کہ اس کے پاس مصدقہ معلومات ہیں، تاہم یہ بھی کہا ہے کہ مظاہروں میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد زیادہ بھی ہو سکتی ہے۔
ایمنسٹی کے مطابق ایرانی سکیورٹی فورسز جن میں سپاہ پاسداران انقلاب، بسیج ملیشیا اور پولیس شامل ہے، نے مظاہرین کو نشانہ بنایا۔
'ان سکیورٹی فورسز نے مظاہرین کے سر اور جسم کے اوپری حصے کو نشانہ بنایا، یہ اس بات کی جانب اشارہ تھا کہ ان کو قتل کیا جائے۔‘
امریکہ نے ایران کے وزیر داخلہ عبدالرضا رحمانی فضلی پر ’سنگین انسانی حقوق کی خلاف ورزی‘ کا الزام لگاتے ہوئے پابندی عائد کی ہے۔ امریکہ نے الزام لگایا ہے کہ وزیر داخلہ عبدالرضا رحمانی فضلی نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو مظاہرین کے خلاف طاقت کے استعمال کے احکامات دیے تھے۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق مظاہروں میں ہلاک افراد کی تعداد زیادہ ہو سکتی ہے (فوٹو: روئٹرز)

امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے کہا کہ 'ایرانی وزیر داخلہ اور ان کی حکومت کا مقصد تھا کہ پرامن احتجاج کو کچلا جائے اور کسی بھی قیمت پر لوگوں کے اکھٹا ہونے اور آزادی رائے کے حقوق کو دبایا جائے۔'
امریکہ نے ایران کے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے سات مزید افراد پر بھی پابندی عائد کی ہے۔
واشنگٹن نے رحمانی فضلی اور 1989 سے 1997 کے درمیان رہنے والے سابق ایرانی انٹیلی جنس سربراہ کے امریکہ کے سفر پر پابندی عائد کی ہے۔
امریکی محکمہ خارجہ نے کہا ہے کہ ایران کے سابق انٹیلی جنس سربراہ دنیا بھر میں قتل اور حملوں میں ملوث تھے۔

شیئر: