Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کورونا بحران ،قطر ایئرویز کی بناوٹی حکمتِ عملی

فلائٹ اٹینڈنٹ سے کہا گیا کہ جہاز پر جاؤ یا پھر اپنے ملک چلے جاؤ (فوٹو: اے ایف پی)
سکائی ٹریکس کی جانب سے ’فائیو سٹار ایئر لائن ریٹنگ‘ کا اعزاز حاصل کرنے والی قطر ایئرویز نے اس وقت عالمی ہوا بازی کی صنعت کو حیرت میں ڈال دیا جب اس نے پروازیں شروع کر دی۔
ایک ایسے وقت میں جب دنیا کی تقریباً ہر ایئرلائن سست روی اور مالی مسائل سے دوچار تھی۔ قطر کی سرکاری ایئرلائن کے پاس موقع تھا  کہ وہ ایسے راستے کا اتنتخاب کرتی جس میں مسائل کو کم سے کم رکھا جا سکتا۔
 
 بغیر ٹکٹس کے ایک لاکھ ڈاکٹرز اور نرسز کو دنیا میں کہیں بھی لے جانے کا اعلان کر دیا کیونکہ اس کی پروازیں دنیا کے مختلف ممالک میں جاتی ہیں۔
 ایک ایسے وقت میں جب معاشی مسائل کی وجہ سے ایئرپورٹس بند ہیں اور فضائی ٹریفک ختم ہو چکی ہے، سی ای اوز اور سی ایف اوز بمشکل ہی ایسا الگ سوچنے کی غلطی کر سکتے ہیں۔
لیکن قطر ایئرویز کی فری ٹکٹس سکیم سے ایسا لگتا ہے کہ یہ وبا کے دوران اخراجات میں کمی سے میڈیا کی توجہ ہٹانے کی کوشش ہے۔

قطر ایئرویز فری ٹکٹس سے وبا کے دوران کوتاہیوں سے توجہ ہٹانا چاہتی ہے (فوٹو: اے ایف پی)

یہ قطر ایئرویز کے لیے ویسا ہی ہے جب مارچ میں دعویٰ کیا تھا کہ جب اس کے حریف ان کے شیڈول سے پروازیں کم کر رہے تھے یہ اپنی پروازوں میں سیٹیں بڑھا رہی تھی اور اس کا مشن تھا کہ ’پھنسے ہوئے مسافروں کو ان کے پیاروں سے ملا دو۔‘
اس قسم کے ہتھکنڈوں سے مجموعی طور پر ایئرویز کے کٹ بیکس کی جانچ پڑتال اور پرواز عملے کے علاج کے حوالے سے کامیابی حاصل ہوئی جبکہ قطری کمپنیوں کی جانب سے اپنے کارکنوں کے خلاف ورزیوں پر کچھ نہیں کہا جاتا۔
’ہمارے پاس کوئی راستہ نہیں تھا، ہمیں مجبور کیا گیا کہ انہی پروازوں پر کام کریں ورنہ نکال دیا جائے گا۔ مینیجرز نے ہمیں انتہائی نامناسب الفاظ میں دھمکیاں دیں، جیسا کہ ’اسی جہاز پر جاؤ یا پھر اپنے تیسری دنیا کے ملک میں چلے جاؤ۔‘

سی ای او قطر ایئرویز نے افرادی قوت میں بیس فیصد کمی کا اعلان کیا تھا (فوٹو: اے ایف پی)

یہ باتیں جنوبی ایشیائی ملک سے تعلق رکھنے والی ایک فلائٹ اٹینڈنٹ نے بتائی تاہم نوکری سے نکالے جانے کے خوف سے اپنی شناخت ظاہر نہیں کی۔
’کچھ خوبصورت نظر آنے والے اور انتظامیہ کے پسندیدہ ممبرز خصوصاً یورپینز سے کہا گیا کہ وہ سی این این کے لیے اداکاری کرتے ہوئے کہیں کہ ہم پرواز میں کارکنوں کی صحت کے لیے کیے گئے اقدامات سے خوش ہیں، انہیں اس کے لیے بڑی رقوم کی ادائیگیاں بھی کی گئیں۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ جہاز پر نہ ان کو کوئی سہولت دی گئی نہ آرام کرنے دیا گیا لیکن اس کے باوجود ان جہازوں پر کام کے لیے مجبور کیے جانے والے کیبن سٹاف کو صرف دھمکیاں دی گئیں۔

قطر ایئرویز کے نکالے جانے والے سٹاف کی تعداد 5 ہزار تک ہو سکتی ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

تجزیہ کار کہتے ہیں کہ قطر ایئرویز سے حالیہ دنوں میں نکالے گئے ملازمین کی خوفناک کہانیاں اس کمپنی کا انتہائی برا تاثر پیش کرتی ہیں جس کا دوحہ کو بطور بین الاقوامی کاروباری مرکز کے پیش کرنے میں مرکزی کردار ہے۔
قطر ایئرویز گروپ جو ایئرلائن کو اپنے اثاثوں میں شمار کرتا ہے۔ اس کی پچھلی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ مارچ دو ہزار انیس کے مالی سال میں یہ چھیالیس ہزار چھ سو چوراسی ملازمین رکھتا تھا۔
سی ای او الباکر نے اعتراف کیا تھا کہ قطر ایئرویز اپنی افرادی قوت میں بیس فیصد کمی کرے گی۔
نوکریاں ختم کیے جانے کے حوالے سے انہوں نے ایک انٹرویو میں بی بی سی کو بتایا تھا کہ ’میرے لیے یہ بہت تکلیف دہ ہے لیکن ہمارے پاس کوئی متبادل راستہ نہیں ہے۔‘

قطر جیسے چھوٹے ملک میں کورونا کے 34 ہزار سے زائد کیسز ہو چکے ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

’بہت تکلیف دہ‘ کے یہ الفاظ غالباً اس صورت حال کو بیان نہیں کر سکتے کہ اجرت میں کٹوتیوں کے بعد وصول کرنے والے کیسا محسوس کرتے ہیں۔
یہ احساس مزید ’تکلیف دہ‘ ہوا جب ملازمتیں اس وقت ختم ہوئیں جب قطری حکومت نے دس ارب ڈالر کی ہنگامی امداد اپنے نظریاتی اور اتحادی ترکی کو بھجوائی، جس کے کرنسی ذخائر کورونا بحران کی وجہ سے ختم ہو چکے ہیں۔
غیرسرکاری اکاؤنٹس سے پتا چلتا ہے کہ قطر ایئرویز کے نکالے جانے والے کیبن سٹاف کی تعداد پانچ ہزار تک جا سکتی ہے۔
اس معیار جس کے ذریعے فیصلہ کیا جاتا ہے کہ کون جائے گا کو ایک سوشل میڈیا یوزر نے جا لیا ہے، جو کچھ یوں ہے کہ کیا انہوں نے ایئرلائن کے ساتھ پندرہ سال سے زائد کام کیا ہے۔

قطر کی جیلوں میں بھی کورونا کے کیسز سامنے آچکے ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

اس سے اس خیال کو تقویت ملتی ہے درست یا غلط طور کہ قطر ایئرویز میں ہائرنگ اور فائرنگ کے طریقہ کار میں عمر کا اہم کردار ہے۔
الباکر اس موضوع پر خیالات ظاہر کرتے ہوئے کبھی شرمسار نہیں ہوئے، دو ہزار سترہ میں انہوں نے کہا تھا کہ کیبن کریو ممبر کی اوسط عمر چھبیس سال ہوتی ہے ان ’نانیوں‘ کے مقابلے میں جو امریکی ایئرلائنز میں خدمات انجام دیتی ہیں۔
عرب نیوز کی جانب سے قطر ایئرویز کا موقف لینے کی کوشش کی گئی لیکن اشاعت تک کوئی واضح ردعمل نہیں دیا گیا۔
تاہم ایئرلائن کو فکرمند ہونے کی کوئی ضرورت نہیں کہ قطری حکومتی حکام کی جانب سے اس سے کوئی بازپُرس کی جائے گی۔

قطر کو غیر ملکی کارکنوں کو حقوق نہ دینے کے الزامات کا بھی سامنا ہے (فوٹو: اے ایف پی)

فروری میں ہیومن رائٹس واچ نے اس وقت دوحہ کے حکام کو کال کی تھی جب وہ اس قطری آجر کے خلاف کوئی ایکشن لینے میں ناکام ہوئے جس نے اپنے دفتری سٹاف کو پانچ ماہ اور مزدوروں کو دو ماہ تک اجرت نہیں دی اور کارکنوں نے عوامی سطح پر اس کی شکایت کی۔
’ہیومن رائٹس واچ کا کہنا ہے کہ 'نتائج سے ایک انتظامی ناکامی سامنے آئی ہے جس کا اثر قطر میں کام کرنے والے تمام آجروں پر پڑتا ہے۔'
ہیومن رائٹس واچ مشرق وسطیٰ کے ڈپٹی ڈائریکٹر مائیکل پیج دو ٹوک الفاظ میں کہتے ہیں کہ ’قطر نے غیرملکی مزدوروں کے تحفظ کے لیے کچھ قوانین پاس کیے ہیں لیکن ایسا لگتا ہے کہ حکام ان معمولی اصلاحات پر عمل درآمد کرانے کے بجائے انہیں میڈیا پر بڑھا چڑھا کر دکھانے میں لگے ہیں۔‘

قطر ایئرویز کی انتظامیہ نے الزامات کا واضح جواب نہیں دیا (فوٹو: اے ایف پی)

پچھلے سال ایمنسٹی انٹرنیشنل نے قطر کی تین تعمیراتی اور صفائی سے متعلق کام کرنے والی کمپنیوں میں تحقیقات کیں اور ”بغیر تنخواہ صرف کام، قطر میں تارکین وطن کے لیے انصاف‘ کے نام سے یہ رپورٹ 52 صفحات پر مشتمل تھی۔
برطانوی اخبار گارڈین کا کہنا ہے کہ ایمنسٹی انٹرنیشنل کو یقین ہے کہ مسئلے کا حقیقی حجم غالباً بہت زیادہ بڑا ہے اور اس کے ڈپٹی ڈائریکٹر برائے عالمی معاملات کہتے ہیں کہ’ مزدوروں کے بارے میں قطر کے تمام زبانی کلامی وعدے زمینی حقیقت سے میل نہیں رکھتے۔‘
حیرت انگیز طور پر جب بہت سی ایئرلائنز صحت کے حوالے سے تمام ضروری اقدامات کے ساتھ جون کے وسط میں جزوی طو پر سروس بحالی کے لیے منصوبہ بندی کر رہی ہیں، قطری ایئرویز کورونا دور کے بزنس ماڈل کے بارے میں غیرضروری سرگوشیوں میں پڑی ہے۔

برطرف ملازمین کی کہانیاں قطر ایئرویز کا انتہائی برا تاثر پیش کرتی ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

اس نے میڈیا میں جو تصویریں جاری کی ہیں ان میں آن بورڈ سٹاف نے پی پی ای (پرسنل پروٹیکٹو ایکوپمنٹس) سوٹ پہن رکھے ہیں جو پچیس مئی سے پروازوں میں استمال ہوں گے۔
یہ مہم احتیاطی تدابیر کے حوالے سے سامنے آئی ہے جس کے بارے میں ایئرلائن کہتی ہے کہ سسٹم کو اس طرح سے ڈیزائن کیا گیا ہے کہ مسافروں اور عملے میں بات چیت کم سے کم ہو۔
’ایک ایئرلائن کی حیثیت سے ہم صحت کے حوالے سے اعلیٰ معیار کو برقرار رکھیں گے تاکہ ہم لوگوں کو بحفاظت گھروں تک پہنچا سکیں، موجودہ وقت میں ہم ایک بار پھر یقین دلاتے ہیں کہ تحفظ ہماری اولین ترجیح ہے‘ یہ بات الباکر نے قطر ایئرویز کی جانب سے ایک بیان میں کہی تھی۔

ایک فلائٹ اٹینڈنٹ کے مطابق مینیجرز نے انہیں دھمکیاں بھی دیں (فوٹو: اے ایف پی)

یہ مناسب نہیں ہو گا تاہم صرف قطر ایئرویز صورت حال کو خراب کر رہی ہے بلکہ ورونا بحران میں بدانتظامی کی مثال بن گیا ہے۔
چونتیس ہزار سے زائد کیسز سے ظاہر ہے کہ اس خلیجی ملک جس کی آبادی ستائیس لاکھ ہے، خلیجی ممالک میں کیسز کی تعداد کے حساب سے دوسرے نمبر پر ہے۔
اسی ہفتے قطری حکومت نے تسلیم کیا کہ جیل میں کورونا کے بارہ کیسز سامنے آئے جس کے بعد انتباہ کیا گیا کہ دوسرے قیدیوں کو بھی بیماری منتقل ہو سکتی ہے۔
ہیومن رائٹس واچ کا کہنا ہے کہ چھ غیر قطری زیرحراست افراد نے دوحہ کی سنٹرل جیل کے اندر بدترین صورت حال کے بارے میں بتایا ہے۔

قطر ایئرویز کے ملازمین نے بہت سے مسائل کا ذکر کیا ہے (فوٹو: اے ایف پی)

اکتیس مارچ کو سولہ این جی اوز اور ٹریڈ یونینز نے مل کر قطر کے وزیراعظم کو خط لکھا تھا اور مطالبہ کیا تھا کہ غیرملکی مزدوروں کے تحفظ کے لیے مناسب اقدامات کیے جائیں کیونکہ دوحہ کے صنعنتی علاقے میں وبا کے پھیلنے کی اطلاعات ہیں۔
’اب ماضی کے کسی بھی وقت سے بڑھ کر قطر کے وعدوں کو پورا کیا جانا ضروری ہے اور غیرملکی مزدوروں کو حقوق دینا بھی، انہوں نے قطر کی معیشت بنانے اور وہاں رہنے والے خاندانوں کا خیال رکھنے میں مدد کی، اب ان کو بھی تحفظ دینا چاہیے۔‘
ہیومن رائٹس واچ نے لکھا کہ قطری حکومت اور قطر ایئرویز کے درمیان وعدوں کی ایک لمبی فہرست ہے، رکھنے کے لیے یا پھر توڑنے کے لیے۔

شیئر: