Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’کھانے میں پیار شامل کرنا بھی ضروری ہے‘

شیف ذاکر قریشی کہتے ہیں کہ اچھا شیف بننے کے لیے کم ازکم پندرہ سال چاہیے ہوتے ہیں (فوٹو: سوشل میڈیا)
پاکستانی شیف ذاکر قریشی کہتے ہیں کہ عید کے موقع پر میٹھے اور روائتی کھانوں سے  دستر خوان سجایا جا سکتا ہے۔ 
اردو نیوز  کے ساتھ انٹرویو شیف ذاکر قریشی نے کہا کہ ’میں شیف ضرور ہوں لیکن عید کے موقع پر یا روٹین میں کوکنگ نہیں کرتا عید چونکہ گھر والوں کے ساتھ گزارتا ہوں اس لیے گھر کی خواتین نے جو بنایا ہو وہی انجوائے کرتا ہوں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اگر کسی خاص مہمان نے آنا ہو تو ان کے لیے دال چاول یا قیمہ بناتا ہوں۔
’میری فیملی نے عید کا موقع ہو یا روٹین کبھی مجھ سے کچھ بنا کر دینے کی فرمائش نہیں کی کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ میں اپنے کام کی وجہ سے مصروف رہتا ہوں اور میرے پاس وقت کی کمی ہوتی ہے۔ کبھی میری بیٹیاں کہہ دیں کہ ناشتہ بنا دیں تو ان کے لیے امریکن یا کونٹینیٹل ناشتہ بناتا ہوں۔‘ 
 ان کا مزید کہنا تھا کہ ہم پاکستانی ہیں ہمارا کلچر بھی پاکستانی ہے اس لیے ہماری زبان کو بھی زیادہ تر ایشیائی  کھانے ہی سمجھ میں آتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں پاکستانی کھانوں کو زیادہ ترجیح دی جاتی ہے۔
’اب ایک روایتی فیملی ہو اس کے سامنے اگر میں فرینچ کھانا بنا کر رکھ دوں تو وہ نہیں کھائے گی اسی فیملی کے سامنے اگر میں مرغ مسلم اور کڑھائی گوشت جیسی ڈشز رکھوں تو وہ شوق سے کھا لے گی۔ اصل بات ہوتی ہے کہ ہم کس کلچر کے ہیں کس ملک کے ہیں اس حساب سے ہماری زبان کا ذائقہ بھی بنا ہوتا ہے ہماری زبان کا ذائقہ بنیادی طور پر ایشیائی کھانوں کا بنا ہوا ہے۔ میں خود بہت سادے کھانے (جیسے دال چاول، سبزی) کھاتا ہوں، لگژری فوڈ پسند نہیں کرتا، ہاں لوگوں کو ہر قسم کا کھانا اس لیے بنانا سکھاتا ہوں کیونکہ وہ میرا شعبہ ہے میرا کام ہے۔‘

 


شیف ذاکر مختلف قسم کے کھانے بنانے کی مہارت رکھتے ہیں (فوٹو: سوشل میڈیا)

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ کھانا وہی بنائیں جو آپ کو بنانا آتا ہے۔ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ کھانا بنانا ایک آرٹ ہے مجھے نہیں پتہ وہ کیوں ایسا کہتے ہیں میرے حساب سے کھانا بنانا آرٹ نہیں ہے۔ اب کھانا بنانا ایسا کام تو نہیں ہے کہ صبح کرنے نکلے شام کو کر کے گھر واپس آگئے۔ یہ تو ایک پیار ہے محبت ہے جنون ہے۔ جب تک کھانے میں پیار شامل نہیں ہوگا اچھا کھانا نہیں بنایا جا سکتا۔
انہوں نے کہا کہ جہاں تک یوٹیوب چینل اور ٹی وی دیکھ کر کوکنگ ایکسپرٹ بننے کی بات ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ یوٹیوب اور ٹی وی دیکھ کر صرف بیس فیصد کھانا بنانے کی آگاہی حاصل ہوتی ہے اور وہ آگاہی بھی یہ ہوتی ہے کہ چیزیں اور برتن پہچان میں آ جاتے ہیں اس کے علاوہ آپ کہیں کہ کوکنگ ایکسرپٹ بن گئے یا بن جائیں گے تو یہ ممکن نہیں ہے۔ دنیا کا کوئی بھی کام لے لیں اس کو کرنے کا ایک مکمل پروسیجر ہوتا ہے۔
’ڈاکٹر بھی بننا ہو تو اس کے لیے بھی ایم بی بی ایس، پھر تین سال ہاﺅس جاب پھر اس طرح کے مزید مراحل طے کرنے کے بعد آپ ہسپتال یا کلینک کھولنے کے قابل ہوتے ہیں کسی بھی سبجیکٹ میں ڈگری لینے کا مطلب یہ نہیں کہ دوسرے ہی دن آپ اس سے متعلقہ کام پرفیکشن سے کرنا شروع کر دیتے ہیں اسی طرح سے کوکنگ ہے آپ صرف یوٹیوب چینل یا ٹی وی دیکھ کر کھانوں کے ایکسپرٹ نہیں بن سکتے۔ اچھا شیف بننے کے لیے کم ازکم کم پندرہ سال چاہیے ہوتے ہیں جتنا تجربہ وسیع ہوتا جائے اتنا ہی ہاتھ میں نکھار آتا جاتا ہے۔‘

ذاکر قریشی کہتے ہیں کہ وہ گھر پر مہمانوں کے لیے دال چاول کا اہتمام کرتے ہیں (فوٹو: شٹر سٹاک)

کھانوں کے ذائقے سے متعلق ذاکر قریشی نے کہا کہ گھر کے کھانوں میں ہوٹل والا ذائقہ اس لیے نہیں ہوتا کیونکہ ہمارے ہاں بریانی کی ہی مثال لے لیں اب اگر یہ آج بنی ہے تو دو ہفتوں کے بعد یا تین ہفتوں کے بعد اگر دوبارہ بنے گی تو اتنی دیر میں خواتین کے ہاتھ کا بیلنس آﺅٹ ہوجائے گا کہنے کا مقصد یہ کہ جو چیز مسلسل بناتے رہیں اس میں پرفیکشن اور ہوٹل والا ذائقہ بن جاتا ہے اب اگر آپ نے بنانا ہی کبھی کبھی ہو تو ہاتھ کا بیلنس کیسے قائم رہ سکتا ہے۔
ذاکر قریشی کے مطابق کہ ان کا کوئی بھی آئیڈل شیف نہیں ہے ’مجھے تو فٹ پاتھ یا ٹھیلے پر ذائقے والی چیز ملے کھا لیتا ہوں اور تعریف بھی کرتا ہوں۔‘
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ’میں اس شعبے میں نہیں آنا چاہتا تھا لیکن میرے والد، ماموں ذاد اور چاچا زاد بھائی اسی شعبے میں تھے لہذا میں نے بھی اس شعبے میں آنے کا سوچ لیا لیکن اس سے قبل میں نے اس سے متعلقہ پڑھائی کی۔‘

پااکستانی شائقین چیف ذاکر قریشی کے کے بنائے ہوئے کھانے پسند کرتے ہیں (فوٹو: پکس ہیئر)

انہوں نے مزید کہا کہ آج کل  کوکنگ سکھانے کے ادارے نوجوان نسل کے ساتھ غلط بیانی کر رہے ہیں، تین ماہ کے کورس کے بعد سرٹیفیکٹ بانٹ دیتے ہیں اس طرح طالب علم کو لگتا ہے کہ میں نے کھانا بنانا سیکھ لیا ہے اور اب مجھے دنیا میں کہیں بھی ملازمت مل سکتی ہے حالانکہ ایسا کچھ بھی نہیں ہوتا انہیں کہیں کوئی ملازمت نہیں ملتی، جس کام کو سیکھنے کے لیے کم ازکم پندرہ سال چاہئیں وہ تین ماہ میں کیسے سیکھا جا سکتا ہے۔ اس لیے اس شعبے میں آنے کے لیے متعلقہ پڑھائی کریں اپنے زندگی کے مسلسل کئی سال اس شعبے کو دیں تاکہ ہاتھ میں نکھار آئے اور آپ ایک اچھے شیف کہلا سکیں۔

شیئر: