Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

میٹھی عید کی خاص سوغات شِیرخُرما

’عید پر گلے ملنے کی رسم کتنی پرانی ہے نہیں پتا۔‘ (فوٹو؛ اے ایف پی)
عید کا چاند تم نے دیکھ لیا 
چاند کی عید ہو گئی ہوگی 
شاعرنے اس شعر میں محبوب کو وہاں پہنچا دیا ہے جہاں چاند پہلے سے موجود ہے۔ کہتے ہیں عید اپنوں کی دید کا نام ہے۔ کبھی ’چاند‘ کے ہم نام صحافی نے مطلع کیا تھا کہ ’کراچی سے لوگ ’اندرونُ المُلک‘ اپنوں میں عید منانے جارہے ہیں‘۔ مگراس اطلاع کے برسوں بعد صورت حال یہ کہ:
کوئی واں سے نہ آ سکے یاں تک 
آدمی واں نہ جا سکے یاں کا  
عید پر گلے ملنے کی رسم کتنی پرانی ہے نہیں پتا، البتہ یہ بتا سکتے ہیں کہ عید پر گلے ملنے کا فائدہ یہ بھی ہے کہ کپڑوں کے ساتھ مزاج پرلگی کلف بھی دور ہوجاتی ہے، اور دل پکاراٹھتا ہے ’جب گلے مِل لیے سارے گِلے جاتے رہے‘۔
’پر ہمارا گِلا تو اب بھی برقرار ہے‘: قشقاری صاحب نے شکوہ کیا
وہ کیوں؟
وہ یوں کہ عید کا دن ہے اورہمیں آپ کے ہوتے ’عید‘ کے معنی ہی نہیں پتا۔ 

 

ہمیں ان کے بھول پن پر پیار آگیا، کہا ایسا ہے تو پھر سنو’عید‘ لفظ ’عَود‘ سے نکلا ہے ’عَود‘ کے معنی میں ’لوٹنا، واپسی اوربازگشت‘ شامل ہیں۔ استاد ’ناسخ‘ کہہ گئے ہیں:
پیری میں بھی ملتا ہے جو کمسن کوئی محبوب
کرتی ہے وہیں ’عَود‘ جوانی مرے دل کی
جہاں تک لفظ ’عید‘کی بات ہے تو ایک بڑے محقق علامہ راغب اصفہانی لکھ گئے ہیں کہ لغت کے اعتبار سے’عید‘ اس دن کو کہتے ہیں جو ’بار بار لوٹ کر آئے‘ اور اصطلاح شریعت میں ’عیدالفطر‘ اور’عیدالاضحی‘ کو ’عید‘ کہا جاتا ہے۔ 
چوں کہ یہ دن ہر سال لوٹ کرآتا اور خوشیاں دے جاتا ہے اس لیے ’خوشی‘ اور’خوشی کا ہر دن‘ بھی ’عید‘ کے معنی میں شامل ہوگیا۔ اس بات کو خواجہ حیدر علی آتش کے اس مصرع میں دیکھو’ ہر شب شبِ برات ہے، ہر روز عید ہے‘۔ 
اب’عَود‘ کے معنی کو ذہن میں رکھتے ہوئے اس سے پھوٹنے والے لفظوں ’وعدہ ، وعید ،اعادہ، عادت، معاد اور مَوعُود‘ پرغورکرو سب میں ’لوٹ کرآنے یا باربار لوٹنے‘ کا تصورموجود ہے۔
قشقاری صاحب کچھ سوچ کر بولے ’وعدہ اور وعید‘ میں کیا فرق ہے؟   
انہیں اس بات کا جواب ہم نے ایک صاحبِ علم کے الفاظ میں دیا:
کسی کو مستقبل میں ’بھلائی‘ کی خبر دینے کو’وعدہ‘ اور’بری یا شر‘ سے متعلق اطلاع  دینے کو ’وعید‘ کہتے ہیں‘۔  

’شِیرخُرما‘ کی ترکیب فارسی کے شِیر(دودھ) اورعربی کے خُرما(کھجور) سے مل کر بنی ہے (فوٹو: سوشل میڈیا)

سرکھجاتے ہوئے بولے اب یہ بھی بتادو کہ اس عید کو ’عید الفطر‘ کیوں کہا جاتا ہے؟ 
جواب دیا: جب رمضان ختم ہوتا ہے تو اگلے دن یکم شوال کا ہوتا ہے اوراس دن عید منائی جاتی ہے۔ اب ذرا رمضان کے ’افطار‘ اورعید کے ’فطر‘ پر غور کرو کہ دونوں ہم معنی الفاظ ہیں۔ جس طرح ہر روزے کا افطار غروب آفتاب کے بعد کیا جاتا ہے اسی طرح رمضان کے پورے مہینے کا افطار اس عید کے دن ہوتا ہے۔ اس لیے اس دن کو ’عید الفطر‘ کہتے ہیں۔
بولے’ اس عید کوچھوٹی عید اور میٹھی عید بھی تو کہتے ہیں ناں؟
جی بالکل کہتے ہیں، یہ ’شِیرخُرما‘ جو آپ کھا رہے ہیں اس میٹھی عید کی خاص سوغات ہے۔ 
بولے: اگرکچھ روشنی’ شِیرخُرما‘ پر بھی ڈال دو تو کوئی مضائقہ نہیں۔
ہم نے کہا ایسا ہے تو پھر سنو ’شِیرخُرما‘ کو بعضے لوگ ’شِیرخورمہ‘ بھی کہتے ہیں، یعنی ’قورمہ‘ کے وزن پر ’خورمہ‘، جو ظاہر ہے کہ درست نہیں۔ 
وہ کیونکہ ؟ ۔۔۔ انہوں نے ’باؤل‘ میں مزید ’شِیرخُرما‘ انڈیلتے ہوئے پوچھا۔
’شِیرخُرما‘ کی ترکیب فارسی کے شِیر(دودھ) اورعربی کے خُرما(کھجور) سے مل کر بنی ہے۔ غور کرو اس ’سوئٹ ڈش‘ کے بنیادی اجزاء میں شکر کے علاوہ یہی دو چیزیں شامل ہیں۔

محاورہ ہے ’جوئے شِیرلانا‘ اور مطلب ہے دودھ کی نہر کھودنا (فوٹو: اے ایف پی)

کہنے لگے ’شِیر‘ اور ’شَیر‘ میں کیا رشتے داری ہے؟
ان دونوں میں معنی کے اعتبار سے کوئی تعلق نہیں کہ ایک کے معنی دودھ (شِیر) ہیں اور دوسرا مشہوردرندہ (شَیر) ہے۔ البتہ ظاہری مماثلت یہ ہے کہ دونوں فارسی زبان کے الفاظ ہیں اور ایک ہی طرح لکھے جاتے ہیں، بس ایک کا ’شین‘ زیر کے اور دوسرا کے کا زبر کے ساتھ ہے۔
ویسے ’شِیر‘ اردو میں ایسا اجنبی بھی نہیں، فارسی کی رعایت سے اردو میں بہت سے ترکیبیں رائج ہیں جو ’شِیر‘ سے مل کر بنی ہیں۔
مثلاً ؟
مثلاً شِیرخوار(دودھ پیتا بچہ)، شِیرمال (دودھ سے بنی خمیری میٹھی روغنی روٹی) اور شِیرمادر (ماں کا دودھ) وغیرہ۔ اس ’شِیرمادر‘ کے مجازی معنی ’مباح یا جائز‘ کے بھی۔ اپنے اس معنی کے ساتھ یہ  اکثر سیاسی بیانات میں برتا جاتا ہے۔ جیسے کہ’فلاں نے قومی وسائل ’شِیرمادر‘ سمجھ کر لوٹ لیے‘ وغیرہ
بولے : ’شِیرو شکر‘ بھول گئے؟
جی بالکل ’شِیرو شکر‘ بھی ہے، مجازاً ’یک جان‘ ہونے کو’شِیروشکر‘ کہتے ہیں۔ ’شِیر‘ کو اس مشہور محاورے میں بھی دیکھ سکتے ہو جو مشکل یا ناممکن کام سرانجام دینے کے موقع پربولا جاتا ہے۔
کون سا محاورہ ؟ ۔۔۔ انہوں نے بے تابی سے پوچھا؟
محاورہ ہے ’جوئے شِیرلانا‘ اور مطلب ہے دودھ کی نہر کھودنا، ادبی روایت کے مطابق’فرہاد‘ نے ’شیرین‘ کی محبت میں ’کوہ بے ستون‘ کاٹ کردودھ کی نہر نکالی تھی۔ اس روایت کا اظہار بھوپال (انڈیا) کے ڈاکٹر اعظم کے شعر میں بھی دیکھ سکتے ہو:
اب محبت ہے مصلحت آمیز
اب کہاں جوئے شیر لاتی ہے

’ ہم تو آج تک ’شَیرلانا‘ سمجھتے رہے کہ شیر پکڑنا بھی تو بہرحال مشکل کام ہے۔‘ (فوٹو: اے ایف پی)

شعر سنتے ہی وہ ہیبت ناک حیرت کے ساتھ گویا ہوئے: اچھا۔۔۔ محاورہ ’ شِیرلانا‘ ہے، ہم تو آج تک ’شَیرلانا‘ سمجھتے رہے کہ شیر پکڑنا بھی تو بہرحال مشکل کام ہے۔
ہم نے کہا اس سے پہلے کہ مزید مہمان آجائیں آخر بات سن لو اور وہ یہ کہ ’شِیر‘ کو اردو میں دودھ کہتے ہیں جس سے ’کھیر‘ بنتی اور دلچسپ بات یہ ہے کہ سندھی میں دودھ کو ’کھیر‘ کہتے ہیں اور اردو میں ’کھیری‘ وہ ہے جسے فارسی میں ’شِیردان‘ کہتے ہیں، جب کہ اردو میں ’شِیردان‘ دودھ کے برتن کو کہتے ہیں۔ 
کہنے لگے یہ جو آپ نے زبانوں کی آڑ میں دودھ بلونا شروع کردیا ہے تواس کا مطلب یہی ہے کہ مجھے اب اٹھ جانا چاہیے۔ 
ہم روکتے ہی رہ گئے مگر وہ تو ہوا کے گھوڑے پر سوار تھے، یہ جا وہ جا۔ وہ تو بعد میں پتا چلا کہ اُن کی اگلی نشست قریشی صاحب کے گھر تھی، جہاں مزید ’شِیرخُرما‘ ان کا منتظر تھا۔

شیئر: