Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بھارت کا اپنا بسکٹ

انڈین فیکٹریوں میں خواتین کی ایک بڑی تعداد بھی کام کرتی ہیں (فوٹو: اے ایف پی)
جب سے وزیر اعظم نریندر مودی نے یہ اعلان کیا ہے کہ اب انڈیا کو خود کفیل بنانے کا وقت آگیا ہے تو لوگوں میں ایک عجیب سا کنفیوژن ہےسب کچھ انڈیا میں بنائیں یا کچھ دوسروں کے لیے بھی چھوڑ دیں۔
اگر سب کچھ انڈیا میں بننے لگا تو باقی ملک کیا کریں گے؟ اور کیا انڈیا صرف اتنا بنائے گا جتنی ملک کے اندر کھپت ہے یا ایکسپورٹ بھی کرے گا۔
اور اگر ایکسپورٹ کرے گا تو کیا باقی ملک یہ نہیں کہیں گے کہ چلو ہم بھی خود کفیل بن جاتے ہیں، اگر انڈیا والے کر سکتے ہیں تو ہم کیوں نہیں؟ اور پھر تمام ملک خود کفیل ہو جائیں گے، نہ لوگوں کو کاروبار کے سلسلے میں بیرون ملک سفر کرنا پڑے گا اور نہ نوکری کے لیے، اور نہ کوئی بین الاقوامی تجارتی معاہدوں پر کوئی وقت برباد کرے گا۔۔۔ آپ جتنا چاہیں اس بات کو گھسیٹ سکتے ہیں۔
لیکن بات اتنی آسان نہیں ہے۔ اگر ہوتی تو کون کسی کے سہارے بیٹھتا؟ امریکہ اور چین ایک دوسرے کے دشمن بھی ہیں لیکن انہیں ایک دوسرے کی ضرورت بھی ہے۔۔۔ ورنہ کب کی طلاق ہو چکی ہوتی۔
انڈیا میں خود کفالت کا خواب نیا نہیں ہے، اس نے مختلف سیاسی نظریوں میں جگہ پائی ہے۔ آزادی کی جدوجہد کے دوران ’سودیشی‘ کی مہم نے اہم کردار ادا کیا تھا جس کے تحت برطانوی ساز و سامان کے بائیکاٹ اور ملک کے اندر بنایا جانے والا سامان استعمال کرنے کی اپیل کی گئی تھی۔
حکمراں بی جے پی کی نظریاتی سرپرست تنظیم آر ایس ایس اب بھی سودیشی کے خواب کو عملی شکل دینا چاہتی ہے اور شاید خود کفیل یا ’آتم نربھر بھارت‘ آر ایس ایس کے وسیع تر اجنڈے کی ہی ایک کڑی ہے۔ خود کفیل ہونا تو ظاہر ہے کہ کوئی غلط بات نہیں ہے، انڈیا ’سبز انقلاب‘ کی بدولت اب اجناس کی پیداوار میں نہ صرف خود کفیل ہے بلکہ دنیا میں چاول کا سب سے بڑا ایکسپورٹر بھی ہے۔

وزیراعظم نریندر مودی وقتاً فوقتاً اہم امور پر قوم سے خطاب کرتے ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

لیکن خطرہ پروٹیکشنزم کا ہے۔ یعنی ایسا نہ ہو کہ کمپٹیشن پر قابو پانے کے لیے دوسرے ملکوں میں بننے والے بہتر اور سستے سامان کا امپورٹ روکنے کے لیے محصولات کی شکل میں رکاوٹیں کھڑی کر دی جائیں۔ نوے کے عشرے تک ایسا ہی ہوتا تھا۔ سکوٹر خریدنے کے لیے بھی لوگ پانچ دس سال خوشی سے انتظار کرتے تھے، اس سے کم وقت میں آج کل جنگی طیاروں یا آب دوز کی ڈیلیوری مل جاتی ہے۔ پھر انڈیا میں اقتصادی اصلاحات کا دور شروع ہوا اور صرف دس پندرہ سال میں نئی ٹکنالوجی کی چکاچوندھ چاروں طرف نظر آنے لگی۔
خود کفیل ہندوستان سے بہت پہلے وزر اعظم نریندر مودی نے میک ان انڈیا کا نعرہ دیا تھا۔ وہ پروگرام بڑی حد تک ناکام رہا شاید اس لیے کہ بڑی کمپنیاں سرمایہ کاری کرنے سے پہلے دو تین چیزیں دیکھتی ہیںامن و قانون کی صورتحال، حکومت کی پالیسیوں میں استحکام اور سب سے اہم یہ کہ سرمائے پر مناسب منافع ملے گا یا نہیں۔
اس لیے جب وزیراعظم ٹویٹ کرتے ہیں کہ رات کو آٹھ بجے وہ قوم سے خطاب کریں گے تو کاروباری لوگوں کی روح فنا ہوتی ہے۔ چار سال پہلے ایک دن اچانک وہ رات کو آٹھ بجے ٹی وی پر آئے اور اعلان کردیا کہ چار گھنٹے بعد، یعنی رات بارہ بجے سے ملک میں بڑے کرنسی نوٹ بند کردیے گئے ہیں۔
انہوں نے ایک ہی جھٹکےمیں کچھ دنوں کے لیے امیر اور غریب کا فرق ختم کر دیا اور معیشت اس جھٹکے سے ابھی تک ابھر نہیں پائی ہے۔ وزیر اعظم کے مداحوں نے اس وقت کہا تھا کہ نوٹ بندی کرکے مسٹر مودی نے جو کر دکھایا دنیا میں کوئی دوسرا رہنما نہیں کر سکا۔ جواب میں لوگ کہتے تھے کہ بھائی اس کی وجہ یہ ہے کہ دوسرے رہنماؤں کو معیشت کی بہتر سمجھ ہے۔
پھر انہوں نے چار گھنٹے کے نوٹس پر پورے ملک میں لاک ڈاؤن کا اعلان کردیا۔ بالکل نوٹ بندی کی ہی طرح۔ آٹھ بجے خطاب اور بارہ بجے سے تالہ بندی۔ چند روز قبل جب وہ رات آٹھ بجے دوبارہ ٹی وی پر آئے تو لوگ بس اسی بات سے خوش تھے کہ انہوں یہ نہیں کہا کہ آج رات بارہ بجے سے ملک خود کفیل ہو جائے گا۔

حالیہ برسوں میں انڈیا اقتصادی ترقی کی رای پر گامزن ہوا ہے (فوٹو: اے ایف پی)

انڈیا سافٹ ویئر ڈیویلپمنٹ میں بہت آگے ہے لیکن دنیا میں تیل کا تیسرا سب سے بڑا امپورٹر بھی ہے اور خام تیل کی اپنی کل ضرورت کا اسی فیصد سے زیادہ حصہ امپورٹ کرتا ہے۔ الیکٹرانکس اور فارما انڈسٹری میں وہ بڑی حد تک چین پر انحصار کرتا ہے۔ اور فوجی ساز و سامان کے سب سے بڑے امپورٹرز کی فہرست میں وہ دوسرے نمبر پر ہے۔۔۔ یہ لسٹ بہت لمبی ہے۔
بنانے کو تو بہت کچھ ہے لیکن آپ جنگی طیارے خریدنے جائیں گے تو یہ سوچیں گے کہ میڈ ان انڈیا ہوں یا یہ کہ دشمن کے طیاروں سے بہتر ہوں، بنے چاہے کہیں بھی ہوں؟
یہ لمبا سفر ہے۔ کچھ ملک اس دوڑ میں بہت آگے نکل چکے ہیں۔ دوسرے ممالک پر کسی بھی چیز کے لیے ضرورت سے زیادہ انحصار تو کسی بھی معیشت کے لیے نقصان دہ ہوتا ہے لیکن اس کا تدارک یہ نہیں ہے کہ آپ سب کچھ خود ہی بنانے کی کوشش کرنے لگیں۔ کوئی بھی بڑی مینیوفیکچرنگ کمپنی کبھی سارا سامان خود بنانے کی کوشش نہیں کرتی۔
اس میں کوئی راکٹ سائنس نہیں ہے کہ راکٹ بنانے کے لیے بھی جو چیز جہاں سستی اور اچھی بن سکتی ہے وہاں سے بنوائی جاتی ہے۔ اسی لیے چین اتنا بڑا مینیوفیکچرنگ ہب بن پایا ہے۔ حکومت یہ تو کہہ رہی ہے کہ اس کا ارادہ ’سودیشی‘ کے پرانے نظریے پر لوٹنے کا نہیں ہے اور وہ کچھ کور سیکٹرز پر فوکس کرنا چاہتی ہے لیکن حکومتوں کے اصل ارادے کون سمجھ پایا ہے۔

لاک ڈاؤن کے باعث انڈیا میں اقتصادی سرگرمیاں رک گئی تھیں (فوٹو: اے ایف پی)

یہ سچ ہے کہ کوروناوائرس کی وجہ سے بہت سی کمپنیاں چین پر اپنا انحصار کم کرنا چاہتی ہیں تاکہ وہ اپنی سپلائی چینز بہتر طور پر مینیج کرسکیں۔ اور یہ انڈیا جیسے ملکوں کے لیے مینیوفیکچرنگ کو فروغ دینے کا اچھا موقع ہے۔ بس ملک کو اسی طرح پرموٹ کرنا ہوگا جیسے سیاحت کے لیے کیا جاتا ہےیہ جگہ آپ کے لیے محفوظ ہے اور یہاں آکر کام کرنے میں آپ کو مزا آئے گا۔
لیکن یہ کام آسان نہیں ہے۔
بسکٹ کی ہی مثال لے لیجیے۔ وزیر اعظم کی تقریر اور مقامی چیزوں کو فروغ دینے کی تلقین کے بعد ایک کمپنی اپنے گلوکوس کے بسکٹ کو ’بھارت کا اپنا بسکٹ‘ بتا کر بیچ رہی ہے۔ بسکٹ اور حب الوطنی یا قوم پرستی کا کنکشن ذرا کمزور ہے۔ بسکٹ اچھا اور سستا ہے تو یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ وہ کہاں بنا ہے، اگر نہیں ہے تو آپ کتنا بھی شور مچاتے رہیں کوئی نہیں خریدے گا۔
یہ دروازے بندکرنے کا نہیں کھولنے کا وقت ہے۔

شیئر:

متعلقہ خبریں