Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کوئٹہ میں ہجوم کے تشدد سے نوجوان ہلاک

سوشل میڈیا میں شیئر کی جانے والی تصاویر اور ویڈیوز پر سخت و غم کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ فوٹو: سوشل میڈیا
بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں پولیس حکام کے مطابق سینکڑوں افراد پر مشتمل ہجوم نے خواتین کو ہراساں کرنے کے الزام میں بہیمانہ تشدد کرکے ایک نوجوان کو ہلاک اور دو کو شدید زخمی کردیا ہے۔
پولیس نے زخمیوں کو دو گھنٹے کی کوششوں کے بعد ریسکیو کرکے ہسپتال منتقل کردیا۔ 
بروری تھانہ کے ایس ایچ او عزت اللہ نے اردو نیوز کو ٹیلی فون پر بتایا کہ واقعہ جمعے کی شب تقریبا آٹھ بجے کوئٹہ کے علاقے ہزارہ ٹاؤن میں علی آباد کے مقام پر پیش آیا جہاں علاقے کے لوگوں نے دوسرے علاقے سے آنے والے تین نوجوانوں کو خواتین کی ویڈیو بنانے کے الزام میں پکڑا اور بدترین تشدد کا نشانہ بنایا۔ 
ایس ایچ او کے مطابق 300 سے 400 افراد پر مشتمل ہجوم نے تینوں نوجوانوں کو ایک حمام کی دکان میں لے جاکر ان کے کپڑے اتارے اور انتہائی بے دردی سے مسلسل مارتے رہے۔ پولیس موقع پر پہنچی تو ہجوم نے مزاحمت کی اور پتھراؤ شروع کر دیا۔ پتھراؤ سے ڈی ایس پی اور ایس ایچ او معمولی زخمی ہوئے۔
سوشل میڈیا پر صارفین نے واقعہ پر سخت غم و غصے کا اظہار کیا ہے اور لاش کی تصاویر شیئر کرنے کی بھی مذمت کی جا رہی ہے۔

 

پولیس کے مطابق دو گھنٹے کی کوششوں کے بعد دو نوجوانوں کو شدید زخمی حالت میں ریسکیو کیا گیا جبکہ 23 سالہ تیسرے نوجوان کی موت ہوگئی تھی۔ 
لاش اور زخمیوں کو بولان میڈیکل ہسپتال پہنچایا گیا۔ ڈاکٹر کے مطابق زخمیوں کو سر اور پورے جسم پر لاٹھیوں، ڈنڈوں، چاقو کے وار کے نتیجے میں گہرے زخم لگے ہیں اور ان کی حالت انتہائی تشویشناک ہے۔ دونوں زخمیوں کو مزید علاج کے لیے سول ہسپتال کے ٹراما سینٹر منتقل کردیا گیا۔ 
مقتول کی شناخت بلال احمد نورزئی کے نام ہوئی۔ زخمیوں میں خلیل احمد اور نیاز احمد شامل ہیں۔ تینوں کوئٹہ کے علاقے پشتون باغ کے رہائشی تھے۔ واقعہ کے بعد علاقے میں کشیدگی  کی فضا پیدا ہوگئی۔
مقتول کے لواحقین اور پشتون باغ کے رہائشیوں نے لاش کے ہمراہ وزیراعلیٰ ہاؤس کے قریب زرغون روڈ پر دھرنا دیا اور ملزمان کی گرفتاری کا مطالبہ کیا۔ 
احتجاج میں شریک پشتون باغ کے رہائشی ولی محمد ترابی نے بتایا کہ پولیس کی موجودگی میں نوجوانوں پر بدترین تشدد کیا گیا، ان کے جسم دیکھنے کے قابل نہیں۔ لاش کی بھی بے حرمتی کی گئی۔ پولیس نے ہجوم کو منتشر کرنے کے لیے ہوائی فائرنگ تک نہیں کی۔ 

نوجوانوں پر تشدد اور ہلاکت کے خلاف کوئٹہ میں احتجاج کیا گیا (فوٹو: اردو نیوز)

 انہوں نے کہا کہ حمام میں بیٹھے نوجوانوں کا پہلے حمام کے مالک سے جھگڑا ہوا تھا اس بات کی تحقیقات ہونی چاہئیں کہ جھگڑا اصل میں کس بات پر ہوا تھا۔ 
ہزارہ ٹاؤن واقعے کے زخمی نے بتایا کہ انہوں نے حمام کے مالک جواد کو چار لاکھ 20 ہزار روپے کی گاڑی فروخت کی تھی۔ جواد سے پیسے مانگے تو انہوں نے لڑکیوں کی ویڈیو بنانے کے الزام میں ساتھیوں سمیت مجھ پرتشدد کیا۔
پولیس کا کہنا ہے کہ گیارہ افراد کو چھاپے مار کر گرفتار کرکے ان کے خلاف تھانہ بروری میں قتل، اقدام قتل سمیت دیگر دفعات کے تحت مقدمہ درج کرلیا گیا۔ مقدمے میں حمام مالک کو بھی نامزد کیاُ گیا ہے جنہیں گرفتار کر لیا گیا ہے۔ اس طرح گرفتار ہونے والے افراد کی تعداد 12 ہو گئی ہے۔
ایس ایچ او  کا کہنا ہے کہ واقعہ کی تحقیقات شروع کر دی گئی ہیں۔ فوٹیجز کی مدد سے باقی ملزمان کی شناخت کی جارہی ہے۔  صوبائی وزیر داخلہ میر ضیاء اللہ لانگو نے واقعے کا نوٹس متعلقہ اداروں کو تحقیقات کی رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی ہے۔ وزیر داخلہ نے کہا ہے کہ قانون سے بالاتر کوئی نہیں حکومت رٹ کو جو کوئی بھی چیلنج کرے گا ان کے خلاف سخت سے سخت قانونی کاروائی کی جائے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ ایس ایچ او کو غفلت برتنے پر معطل کر دیا گیا ہے۔

شیئر: