Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’مانتا ہوں اداکاری نہیں آتی مگر لوگوں کا پیار مل رہا ہے‘

عدنان صدیقی نے کہا کہ ان کا بھارت میں کام کرنے کا تجربہ خاصا اچھا رہا (فوٹو: اے ایف پی)
گذشتہ دنوں اداکار نعمان اعجاز نے عدنان صدیقی کی اداکاری پر سوال اٹھایا اور کہا کہ انہیں اداکاری نہیں آتی جس کے جواب میں انہوں نے کہا ہے کہ وہ مانتے ہیں کہ انہیں اداکاری نہیں آتی لیکن پھر بھی لوگ ان کام پسند کرتے ہیں۔
 عدنان صدیقی نے اردو نیوز نے کے ساتھ انٹرویو میں کہا کہ عزت دینے اور عزت لینے والی اوپر والے کی ذات ہے۔ میں مسلسل سیکھنے کے عمل میں ہوں اور مانتا ہوں کہ مجھے اداکاری نہیں آتی لیکن اس کے باوجود لوگوں کا پیار مل رہا ہے۔‘
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ نعمان اعجاز پاکستان کے چوٹی کے اداکار ہیں اور پاکستان کی خوش قسمتی ہے اس کے پاس ایسا اداکار ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ویسے میں نے کبھی دعویٰ کیا بھی نہیں کہ مجھے اداکاری آتی ہے باقی میں کسی کو اتنی اجازت نہیں دیتا کہ وہ یہ فیصلہ کرے کہ مجھے اداکاری آتی ہے یا نہیں۔ یہ حق صرف عوام کے پاس ہے۔ اگر عوام ہی مجھے پسند کر رہے ہیں اور خوش ہیں تو میرے لیے یہی کافی ہے۔‘

 

عدنان صدیقی نے کہا کہ یہ کہا جائے کہ مجھے اداکاری نہیں آتی یہ کسی کی بھی اپنی رائے ہی ہوسکتی ہے۔
شہوار کا کردار ادا کرنے کے بعد مزید ڈرامے سائن کرنے کے لیے پریشر تو محسوس کرتے ہوں گے؟
 اس سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پریشر تو ہمیشہ ہی زندگی میں رہا ہے بغیر پریشر کے تو کوئی کام نہیں ہوتا۔
 انہوں نے مزید کہا کہ ’بھارت میں کام کرنے کا تجربہ خاصا اچھا رہا ہے وہاں پروفیشنلزم بہت زیادہ ہے اس چیز کی ہمارے ہاں کمی نظر آتی ہے۔ انڈیا میں فلم کے حوالے سے کافی کام ہوتا ہے لیکن ٹی وی کے معاملے میں وہ ہم سے پیچھے ہیں۔‘
ہمارے ڈرامے کی کہانیاں تنقید کی زد میں کیوں رہتی ہیں؟
 اس پر عدنان صدیقی نے کہا کہ ’اگر کہانیاں اچھی نہیں ہیں تو ڈرامے مت دیکھیں، بدقسمتی سے جو دِکھتا ہے وہی بِکتا ہے۔ جس دن ان ڈراموں کو دیکھنا بند کر دیا گیا یا ڈراموں کی ریٹنگ آنا بند ہوگئی تو یقینا کہانیاں تبدیل ہوجائیں گی۔‘

’فلم پرڈیوسر کے پاس بھی وہی سہولیات ہونی چاہیں جو ایگزیبیٹرز کو حاصل ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

ان کا کہنا تھا کہ ریٹنگ کو ماپنے کا ایک طریقہ کار ہے۔ ایک کمپنی ہے جو ان گھروں میں ریٹنگ بوسٹر لگاتی ہے جہاں ایک ٹی وی ہے اور دیکھنے والے بہت زیادہ ہیں، یوں ایوریج نکالی جاتی ہے کہ کون سا ڈرامہ کتنا دیکھا جا رہا ہے۔ ریٹنگ آپ کے اور میرے نہیں بلکہ عوام کے دیکھنے سے آتی ہے۔‘
ڈراموں کے حوالے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایاا کہ ’میرے پاس تم ہو‘ کے بعد انہوں نے مزید کوئی ڈرامہ سائن نہیں کیا۔
تاہم ان کا کہنا تھا کہ ایک فلم ’دم مستم‘ کے نام سے پرڈیوس کی ہے جس کی شوٹنگ مکمل ہو چکی ہے اور آج کل اس کی ایڈیٹنگ میں مصروف ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ فلم لاہو، کراچی، سندھ اور کشمیر میں شوٹ ہوئی ہے اس میں ایک گانا ایسا ہے جو چاروں صوبوں میں شوٹ ہوا ہے۔
’دم مستم فل مصالحہ فلم ہے اس میں آپ کو مزاح، رومانس، ٹریجڈی اور ہر چیز دیکھنے کو ملے گی۔‘
ایک سوال کے جواب میں عدنان نے کہا کہ فلم بنانا اور اس میں کام کرنا دونوں ہی آسان ہیں۔ بس پرڈیوسر کے پاس بھی وہی سہولیات ہونی چاہئیں جو ایگزیبیٹرز کو حاصل ہیں۔

’میں سمجھتا ہوں کہ سال میں 30 سے 35 فلمیں بھی بہت کم ہیں۔‘ (فوٹو: اے ایف پی)

انہوں نے مزید کہا کہ کہانیاں بنانا آسان ہے لیکن انہیں فلمی انداز میں پِرونا ذرا مشکل کام ہے۔ ’میں اس بات سے متفق ہوں کہ سال میں آٹھ دس فلمیں بنا لینا فلمی صنعت کی بحالی نہیں ہے میں سمجھتا ہوں کہ سال میں 30سے 35 فلمیں بھی بہت کم ہیں۔‘
 ’فلمی صنعت کی بحالی کا سلسلہ ابھی جاری ہی تھا کہ کورونا وائرس کی وجہ سے سب کچھ رک گیا۔ جہاں تک میری فلم کی ریلیز کی بات ہے تو لاک ڈاون کھلنے کے بعد جب حالات مکمل طور پر ٹھیک ہوں گے تو فلم ریلیز کروں گا۔ ابھی تو پہلے یہ دیکھنا ہے کہ لاک ڈاون کھلنے کے بعد لوگ کب سینما گھروں میں آتے ییں اور آتے بھی ہیں یا نہیں۔‘

شیئر: