Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’مولا جٹ کی دشمنی استعمال کی‘

’’ہماری فلم کی کہانی پرانی فلم مولا جٹ سے بالکل مختلف ہے‘ (فوٹو: ٹوئٹر عمارہ)
فلم ’دا لیجنڈ آف مولا جٹ‘ ایک ایسی فلم ہے جو ریلیز سے قبل ہی تنازعات کا شکار رہی، تنازعات ختم ہوئے تو کورونا کی وبا پھیلنے کی وجہ سے ریلیز نہ ہو سکی۔
اس فلم کی ایگزیکٹیو پروڈیوسر عمارہ حکمت  نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’ہماری فلم کی کہانی پرانی فلم مولا جٹ سے بالکل مختلف ہے۔ ہاں، مولا جٹ کی جو دشمنی ہے وہ ہم نے استعمال کی ہے۔ وہ تو پہلے کئی فلموں میں استعمال ہو چکی ہے۔ بلال لاشاری نے خود سکرین پلے لکھا اور ناصر ادیب سے ڈائیلاگز لکھوائے۔‘
انہوں نے کہا کہ پہلی مولا جٹ بھی ناصر ادیب نے ہی لکھی تھی۔ بلال لاشاری نے پروڈکشن سے پہلے کافی وقت لگایا اور کم از کم 70 یا 80 ڈرافٹ تیار ہوئے۔

 

’ریلیز میں تاخیر کی وجہ فلم کے رائٹس کا مسئلہ تھا جو کہ اب ختم ہو چکا ہے، سرور بھٹی اینڈ کمپنی نے کیس کیا جو کافی دیر تک چلتا رہا، تو قصہ مختصر یہ کہ ہمیں ہائی کورٹ نے کہا کہ آپ فلم کا ٹائٹل صرف مولا جٹ نہ رکھیں اس کو کسی کمبینیشن کے ساتھ رکھیں یوں ہم نے جب پچھلے سال دسمبر میں فلم کا ٹریلر ریلیز کیا تو ٹائٹل ’دا لیجنڈ آف مولا جٹ‘ اناﺅنس کر دیا۔
ایک سوال کے جواب میں عمارہ حکمت نے کہا کہ فلم دیکھنے کے بعد سمجھ آئے گی کہ یہ کہانی بالکل نئی ہے۔ سکرپٹ بھی نیا ہے اس کا پرانی والی مولا جٹ سے بالکل بھی کوئی تعلق نہیں ہے۔
’دو سال کے عرصے میں ہم نے فلم کو شوٹ کیا، پنجاب میں بیدیاں روڈ پر بڑا حصہ شوٹ ہوا۔ اس کے علاوہ لاہور فورٹ اور قلعہ روہتاس میں بھی شوٹنگ کی گئی۔ فلم کے رائٹس کے تنازعے کے باعث بیدیاں روڈ پر کافی دیر تک سیٹ لگا رہا۔ کبھی سردی کا موسم آیا تو کبھی گرمی کا۔‘
عمارہ نے کہا کہ ’بیدیاں روڈ پر ہم نے پورا ایک گاﺅں بنایا جسے قائم رکھنا بہت ہی مشکل کام تھا۔ شوٹنگز رکتی تھیں تو سیٹ پر گھاس اُگ آتی تھی۔ نئے سرے سے ہمیں صفائیاں کروانی پڑتی تھیں۔ گرمی میں تو کسی نہ کسی طرح ہم شوٹنگز کر لیتے تھے لیکن سردیوں میں بارشوں کی وجہ سے تو کام بالکل ہی رک جاتا تھا۔
فلم کی کاسٹ بہت بڑی تھی ماہرہ خان، گوہر رشید اور حمزہ علی عباسی اپنے اپنے دوسرے پراجیکٹس میں خاصے مصروف تھے ایسے میں ان کی ڈیٹس ایک ساتھ نکالنا بہت ہی مشکل کام تھا۔

عمارہ نے کہا کہ اس فلم میں گانے نہیں ہیں (فوٹو: عمارہ ٹوئٹر)

پھر ہم نے شروع کے دو مہینے کاسٹ کو ایکشن ٹریننگ بھی دی، فواد خان نے اپنے کردار کے لیے وزن بڑھانا تھا۔ یہ سب چیلنجز تھے جن سے کسی نہ کسی طرح نمٹ لیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ ’ایک چیز جس کا میں خاص طور پر ذکر کرنا چاہتی ہوں کہ فلم میں گانے نہیں ہیں۔ یہ بلال لاشاری کا ہی آئیڈیا تھا۔ انہوں نے پری پروڈکشن میں ایک ایک چیز پر بہت کام کیا، باقی ہاں کچھ لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ میوزک کے بغیر فلم نہیں چلتی لیکن بلال کی اپنی سوچ ہے انہوں نے جب فلم ’وار‘ بنائی تھی اس میں بھی کوئی گانا نہیں تھا تب بھی لوگوں نے کہا کہ تھا کہ فلم نہیں چلے گی لیکن فلم چلی، لوگوں نے دیکھی۔
’میرے حساب سے کونٹینٹ مضبوط ہونا چاہیے۔ گانوں کے ہونے نہ ہونے سے فرق نہیں پڑتا۔ میں یہ بھی بتاتی چلوں کہ جب بلال نے فلم کا کنسیپیٹ بنایا تھا اسی وقت ہی فواد اور حمزہ کو انگیج کر لیا تھا اور جب فلم شروع ہوئی تھی اس وقت فواد خان بھارت نہیں گئے تھے اور حمزہ علی عباسی کو بھی کوئی اتنا نہیں جانتا تھا، لہذا یہ کہنا کہ بلال لاشاری نے یہ فلم سٹارز کے ساتھ بنائی ہے تو غلط ہو گا۔‘
باقی سب ہی ایکٹرز بلال کے ساتھ کام کرنا چاہتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ بلال جب بھی کریں گے کچھ نیا اور ہٹ کر کریں گے، لہذا بلال کے لیے کاسٹ فائنل کرنا اتنا مشکل نہیں ہوتا۔
عمارہ نے بتایا کہ فلم کا سارا کام مکمل ہو چکا ہے۔ عید الفطر پر ریلیز ہونی تھی لیکن کورونا کی وجہ سے تاخیر کا شکار ہو گئی اب جب تک مکمل طور پر حالات ٹھیک نہیں ہوجاتے فلم ریلیز نہیں کی جا سکتی۔ جیسے ہی حالات قابو میں آئے تو یقینا فلم سینما گھروں کی زینت بنے گی۔
’فلم کا دورانیہ ڈھائی گھنٹے کا ہے۔ فلم سے جڑے تمام لوگوں نے بہت ہی محنت کے ساتھ کام کیا ہے۔ باقی میری بطور پرڈیوسر یہ پہلی فلم ہے اور فلم کو کرنے کا تجربہ خاصا اچھا رہا ہے بلکہ میں یوں کہوں گی کہ پہلی فلم نے ہی مجھے بہت کچھ سکھا دیا ہے۔‘

’فلم اگر آسانی سے بن جاتی تو شاید اتنا مزہ نہ آتا‘ (فوٹو: ٹوئٹر عمارہ)

عدالتوں کے چکر اور وکیلوں کے ساتھ میٹنگز کر کرکے مجھے تو لگتا ہے کہ میں آدھی قانون دان بن گئی ہوں۔ فلم اگر آسانی سے بن جاتی تو شاید اتنا مزہ نہ آتا، اس پراجیکٹ سے میں نے جتنا سیکھا ہے شاید ہی کسی اور پراجیکٹ سے سیکھنے کو نہ ملتا۔
آپ نامور ستاروں کی پی آر بھی کر چکی ہیں اس سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ جی ہاں ایسا ہی ہے لیکن یہ کام ذرا اس لیے مشکل ہوتا ہے کیونکہ اس میں آپ جن کی پی آر کر رہے ہوتے ہیں ان کے آئیڈیاز کچھ اور ہوتے ہیں ہمارے کچھ اور لیکن پی سی بی کے ساتھ کام کرکے بہت مزہ آیا اس میں نیشنل پرائیڈ والا بھی ایک عنصر تھا۔
’میں نے یہ کام اب چھوڑ دیا ہے کیونکہ مجھے ایک ہی کام بار بار کرنا اچھا نہیں لگتا حالانکہ اس کام میں پیسے بھی اچھے مل جاتے ہیں لیکن ایک کام کو بار بار کرنا میرا مزاج نہیں ہے ،جب کوئی کام کرکے مجھے پتہ لگ جاتا ہے کہ یہ میرے لیے آسان ہے تو میں آگے کی طرف دیکھتی ہوں کہ اب آگے کیا کرنا ہے۔
گلوکار علی ظفر کے ساتھ آپ کے اختلافات ہوئے ان اختلافات پر روشنی ڈالنا چاہیں گی؟ اس سوال کے جواب میں عمارہ حکمت نے کہا کہ میں نے چھ سال تک علی ظفر کو پی آر کیا۔ ہمارے کچھ پروفیشنل اختلافات تھے۔ وہ اپنی فلم بنانا چاہتے تھے اور میں اپنی ، بس اس سے زیادہ کچھ نہیں کہنا چاہتی۔
’ویسے بھی علی ظفر کو جیسا سیٹ اپ چاہیے تھا انہوں نے ڈھونڈ لیا مجھے جیسا چاہیے تھا میں نے ڈھونڈ لیا اور آگے بڑھ گئی۔ میشا اور علی کے معاملے پر میں کچھ کہنا نہیں چاہتی۔ علی کے ساتھ بھی میں کافی عرصہ کام کر چکی ہوں اور میشا سے بھی میری بہت اچھی دوستی ہے۔ میں ان دونوں کے معاملے میں نہیں پڑنا چاہتی۔‘
آپ پروڈیوسر ایسوسی ایشن کی ممبر بھی ہیں اس پر انہوں نے کہا کہ جی ہاں اس میں پورے پاکستان سے تین سو تیرہ پرڈیوسرز منتخب کیے گئے اور اس میں میرے علاوہ تین اور خواتین ہیں۔
’خوشی کی بات یہ ہے کہ چیئرمین امجد رشید نے عورتوں کی نمائندگی کو یقینی بنایا ، پہلے وقتوں میں انڈسٹری کے لوگ یہ ایسوسی ایشن چلاتے تھے۔‘

عمارہ حکمت نے کہا کہ لوگوں کو ’دا لیجنڈ آف مولا جٹ‘ کا شدت سے انتظار ہے۔ 

 امجد رشید نے نئے اور پرانے لوگوں کی نمائندگی پر زور دیا اور اسے یقینی بنایا۔ پہلے تو بہت گروپنگ ہوا کرتی تھی، لیکن اب ایسا نہیں ہے۔ ہماری روٹین سے میٹنگز ہو رہی ہیں ہر کوئی آن بورڈ ہے۔ فلم انڈسٹری کو آج تک انڈسٹری کا درجہ نہیں دیا گیا۔ ہم اس پر بھی کام کر رہے ہیں اس کے علاوہ کو پروڈکشن کے حوالے سے بھی معاملات کو دیکھ رہے ہیں۔
’ہم نے باقاعدہ اپنی ڈیڈ لائنز سیٹ کر رکھی تھیں لیکن کورونا کی وجہ سے فی الحال کام رُکا ہوا ہے۔ اب یہ گورنمنٹ فنڈڈ باڈی تو ہے نہیں۔ پہلے لاہور اور کراچی کے لوگ اپنے تئیں حکومت سے کچھ نہ کچھ کروا لیتے تھے اتحاد تھا ہی نہیں لیکن اب نئے پرانے لوگوں کو اکٹھا کرکے ایک پلیٹ فارم پر متحد کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ چینلز بھی اپنا اہم کردار ادا کررہے ہیں۔‘
عمارہ حکمت نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ہم لوگ کبھی کبھی تو فلم کی بہت زیادہ پرموشن کر دیتے ہیں جس کی وجہ سے شائقین کی توقعات بڑھ جاتی ہیں۔ فلم لگنے پر اس کا کونٹینٹ کمزور نکلے تو لوگ اتنی زیادہ پرموشن کے باوجود دیکھنے نہیں جاتے، لہذا پرموشن بھی کی جانی چاہیے لیکن کونٹینٹ پر زیادہ توجہ ہونی چاہیے۔
بعض اوقات ایسی فلمیں جن کی اتنی زیادہ پرموشن نہیں ہوئی ہوتی ان کو اوپننگ بھی اتنی اچھی نہیں ملتی لیکن کونٹینٹ اچھا ہونے کی وجہ سے بعد میں لوگ بڑی تعداد میں دیکھنے کے لیے پہنچ جاتے ہیں۔
آخر میں عمارہ حکمت نے کہا کہ ’دا لیجنڈ آف مولا جٹ‘ کی ریلیز کا بے چینی سے انتظار کیا جا رہا ہے۔ وہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ فلم کی کہانی کیسی ہو گی اس میں کیا نیا پن ہو گا۔ امید ہے کہ لوگوں کو فلم ضرور پسند آئے گی۔

شیئر: