Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

صدارتی ریفرنس کے پیچھے ٹرائیکا ہے:جسٹس فائز عیسیٰ

جسٹس قاضی فائز کے خلاف صدر مملکت نے سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کر رکھا ہے۔ فائل فوٹو
صدارتی ریفرنس کا سامنا کرنے والے پاکستان کی سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے وزیراعظم کے معاون خصوصی شہزاد اکبر کے تقرر اور اختیارات پر سوال اٹھائے ہیں۔
سپریم کورٹ میں صدارتی ریفرنس پر زیر التوا آئینی پٹیشن میں جمع کرائی گئی ایک متفرق درخواست میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ مرزا شہزاد اکبر کے پاس غیرمعمولی اختیارات ہیں جو ان کو خودمختار قانونی اداروں جیسے کہ ایف بی آر، ایف آئی اے اور نادرا سے معلومات کے حصول میں مددگار ہیں۔
انہوں نے شہزاد اکبر کے تقرر، ان کے اختیارات پر قانونی سوالات اٹھاتے ہوئے کہا ہے کہ معاون خصوصی کا حکومت چلانے سے کوئی سروکار نہیں ہوتا، اور سپریم کورٹ اس حوالے سے اپنے فیصلوں میں قرار دے چکی ہے کہ وزیراعظم کے معاون خصوصی کی پوسٹ آئینی نہیں اور ان کو وزیرمملکت کے برابر درجہ دینا صرف مراعات کے لیے ہے۔
جسٹس قاضی فائز نے اپنے خلاف صدارتی ریفرنس میں وزیر قانون فروغ نسیم، معاون خصوصی شہزاد اکبر اور سابق اٹارنی جنرل انور منصور کو ٹرائیکا قرار دیا ہے۔
انہوں نے کہا ہے کہ فریق بنانے گئے سرکاری حکام عوام اور سپریم کورٹ کو جوابدہ ہیں جن کو سچائی کا سامنا کرنے سے گھبرانا نہیں چاہیے اور اٹھائے گئے سوالات کا جواب دینا چاہیے۔
جسٹس قاضی فائز نے اپنی متفرق درخواست میں کہا ہے کہ شہزاد اکبر اپنی سابقہ اور موجودہ سیاسی وابستگی کے بارے میں بتائیں اور یہ بھی بتائیں کہ کیا وہ سرکاری ملازم ہیں؟ سیاست دان ہیں؟ دونوں ہیں یا ان میں سے کچھ بھی نہیں؟

صدارتی ریفرنس کے خلاف ملک بھر میں وکیلوں نے ہڑتال کی تھی۔ فوٹو اردو نیوز

انہوں نے سپریم کورٹ سے کہا کہ سابق اٹارنی جنرل کے صدارتی ریفرنس پر سماعت کرنے والے لارجر بینچ پر الزامات کی وضاحت طلب کرنے اور اس کو ریکارڈ کا حصہ بنانے کے لیے کہا ہے۔
جسٹس قاضی فائز کے مطابق ان کی اور ان کے خاندان کی ریاست کے خفیہ ادارے کے ذریعے غیر قانونی نگرانی، معلومات جمع کرنے کے غیرقانونی کام کے بعد اس کے ذریعے مخصوص جھوٹی تصویر پیش کیے جانے کے لیے ایک پراکسی کی ضرورت تھی جو درخواست گزار عبدالوحید ڈوگر کو چھوٹا سا کردار دے کر پوری کی گئی۔
جسٹس قاضی فائز نے اپنے خلاف ایسٹ ریکوری یونٹ کو درخواست دینے والے عبدالوحید ڈوگر کے بارے میں بھی سوالات پوچھے ہیں اور کہا ہے کہ وہ کیا کام کرتے ہیں؟ پہلے کیا کرتے تھے اور ان کی آمدن کتنی ہے؟

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے شہزاد اکبر کی تقرری پر سوالات

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سپریم کورٹ میں جمع کیے گئے اپنے جواب میں شہزاد اکبر کے حوالے سے سترہ سے زائد سوالات اٹھائے اور باربار انہیں بہروپ بدلنے والے شخص یا امپوسٹر قرار دیا۔
جسٹس فائز عیسی نے پوچھا کہ کیا شہزاد اکبرسرکاری ملازم ہیں یا سیاستدان؟ ان کو اثاثہ جات ریکوری یونٹ کے سربراہ کے طور پر  کس نے ملازمت پر رکھا؟ کیا ایسٹ ریکوری یونٹ کے چیئرمین کے عہدے کا اشتہار دیا گیا؟ کیا اثاثہ ریکوری کے چیئرمین کے لیے درخواستیں طلب کی گئیں؟ کیا شہزاد اکبر کا انتخاب فیڈرل پبلک سروس کمیشن کے ذریعے ہوا؟

جسٹس قاضی فائز نے شہزاد اکبر کے تقرر اور اختیارات پر سوال اٹھائے ہیں۔ فوٹو اے ایف پی

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سوال اٹھایا کہ اگر ان تین چار سوالات کے جواب منفی میں ہیں تو کیسے ملازمت پر رکھا گیا؟ شہزاد اکبر کی ملازمت کی شرائط اور ضوابط کیا ہیں؟ کیا شہزاد اکبر پاکستانی ہیں، غیر ملکی ہیں یا دوہری شہریت رکھتے ہیں؟
انہوں نے سوال اٹھاتے ہوئے کہ چونکہ اثاثہ ریکوری یونٹ قانونی نہیں تو اس پر اور اسکے نام نہاد چئیرمین پر خرچ ہونے والا ایک ایک روپیہ کیا عوام کے پیسے کی چوری کے مترادف ہے؟
انہوں نے اعتراض کیا کہ شہزاد اکبر نے سپریم کورٹ کے جج اور اہل خانہ کے بارے میں معلومات غیر قانونی طور پر اکٹھا کیں، شہزاد اکبر نے اپنے اور اپنے خاندان کے بارے میں کچھ ظاہر کیوں نہیں کیا؟ ان کا اِنکم ٹیکس اور ویلتھ اسٹیٹس کیا ہے؟ شہزاد اکبر نے کب اپنے اِنکم ٹیکس ریٹرن داخل کروانا شروع کیے؟ انہوں نے اپنی جائیداد،اثاثوں اور بینک اکاؤنٹس کے بارے میں کیوں نہیں بتایا؟ 
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سوال اٹھائے کہ شہزاد اکبر نے کی آمدنی اور دولت کتنی ہے؟ کیا انہوں نے ٹیکس گوشوارے جمع کروائے؟ اپنی بیوی اور بچوں کے نام کیوں ظاہر نہیں کیے؟ ان کی بیوی اور بچےکس ملک کی شہریت رکھتے ہیں؟ کیا شہزاد اکبر کی بیوی اور بچوں کی جائیدادیں پاکستان میں ہیں یا بیرون ملک؟ کیا انہوں نے اپنی بیوی اور بچوں کی جائیدادیں اپنے گوشواروں میں ظاہر کیں؟
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے 20 صفحات کی درخواست کے اختتام پر لکھا ہے کہ سپریم کورٹ میں ریکارڈ کی درستگی کے لیے ان کے نکات کو کارروائی کا حصہ بنایا جائے۔

شیئر: