Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ایک بیٹے کا اپنے باپ کو حقیقت پر مبنی خط

’سب ایک دوسرے کی جان کے دشمن بن بیٹھے تھے۔‘ (فوٹو: پیکسل)
پیارے ابا جی !
سلام
بہت سالوں میں ہمت ملی، آپ کو خط لکھنے کی۔ آخری بار جب آپ پر نظر پڑی تھی، تو ٹرین میں آپ اوندھے منہ لیٹے تھے۔ اماں بھی آپ کے پاس ہی تھیں۔ اس وقت میری عمر لگ بھگ چار برس تھی، اس لیے ذہن کچھ دھندلا سا گیا ہے۔ لیکن اتنا یاد ہے، کہ میری دو شیر خوار بہنیں جن کے نام مجھے یاد نہیں، اماں کی گود میں دبک کر بیٹھی تھیں۔
دونوں ننھی بہنوں نے اس وقت سے ہی دم سادھ لیے تھے جب سے ہم عجلت میں چاچا بلو کے کہنے پر گھر سے بھاگ کھڑے ہوئے تھے۔ اماں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ، ابا کا شور سنتے ہی، زیور کی پوٹلی قمیض کے گلے کے اندر سے، سینے پر رکھی، برقع اوڑھا اور بچیاں دبوچ کر بھاگ پڑی۔ 
ہمارے ساتھ ساتھ محلے کے اور لوگ بھی بھاگ رہے تھے، ایسے جیسے گیدڑ ہمارے پیچھے پڑے ہوں۔ میں نے دادا کا ہاتھ تھامے، دوڑتے دوڑتے پیچھے مڑ کر دیکھنا چاہا تو لڑکھڑا کر گر گیا۔
بھگدڑ ہی ایسی تھی۔ گھٹنے چھل گئے، دادا نے اٹھا کر کندھے پر بٹھا لیا۔ میں رونے لگا، کیونکہ مجھے درد ہو رہا تھا اور میں نے دیکھا کہ آپ، جو ہم سب سے آگے راستہ صاف کر رہے تھے، دو گلیاں دور رہنے والے بھشن سنگھ اور گلاب سنگھ سے لڑ رہے تھے۔
آپ سب کے ہاتھوں میں گرزیں تھیں۔ میں نے کئی بار اپنے ابا کو دنگل کے اکھاڑے میں ان سب نام نہاد پہلوانوں کو پچھاڑتے دیکھا تھا۔ دنگل کی لڑائی میں اور اس لڑائی میں زیادہ فرق نہیں تھا، سوائے اس کے، کہ اکھاڑے کی لڑائی میں اصول اور ضابطے ہوتے ہیں، یہاں نہ تو اصول رہا اور نہ ہی ضابطہ۔ سب ایک دوسرے کی جان کے دشمن بن بیٹھے تھے۔
دادا نے آپ کو آواز دی، ’مُنڈیا، آجا!‘ لیکن لڑائی کو بیچ میں چھوڑ کر کیسے آتے آپ؟ میں آپ کے پاس سے گزر گیا، اماں بھی اور چاچا بھی۔ آپ کے ساتھ اور لوگ بھی مارا ماری میں شامل ہو گئے، اور بس بھگدڑ مچی تو میں کچھ اور نہ دیکھ سکا۔ 
چار سال کا تھا نا، اس لیے بہت کچھ بھول گیا ہوں۔ مجھے یاد ہے، بھیڑ بکریوں کی طرح ٹرین کے ڈبوں پر سوار ہوئے تو آپ بھی کہیں سے آن نکلے۔ میری جان میں جان آئی جب آپ نے مجھے سینے سے لگا کر کہا، ’گھبرا نہ، سراج۔ تیرا ابا آگیا ہے۔‘
میں دادا کی گود میں بیٹھ گیا، اور چھوٹی بہنیں اماں کی بانہوں میں چھپ گئیں۔ آپ، ابا جی، اپنی تلوار اور گرز پکڑے، بوہڑ کے درخت کے مضبوط تنے کی طرح، محافظ بن کر کھڑے ہو گئے۔ سچ کہوں ابا جی، تو ٹرین کے ڈبے میں جب ہلڑ مچا، تو میں دادا کی گود میں بیٹھا بیٹھا ڈر گیا تھا۔ دادا کی ٹانگیں بھی تھر تھر کانپنے لگی تھیں۔

’آپ کا خون جوش مار گیا تھا سو آپ اپنی تلوار تھامے کھڑے رہے۔‘ (فوٹو: اے ایف پی)

انھوں نے چند سیکنڈز تو مجھے خود سے چمٹائے رکھا، لیکن پھر یکدم فرش پر بیٹھ گئے اور دھیرے دھیرے سے بولے، ’لیٹ جا سراج، لیٹ جا۔‘ مجھے سیٹ کے نیچے چھپا کر وہ خود میرے سامنے لیٹ گئے۔
 ابا جی، دادا نے آپ کو بیٹھنے کو کہا تھا لیکن آپ اپنی ضد کے پکے زمیندار تھے اور آپ کا خون جوش مار گیا تھا سو آپ اپنی تلوار تھامے کھڑے رہے۔
 آپ جانتے ہیں ابا جی، آج بھی ٹی وی پر، کسی عجائب گھر میں، کوئی کالے دستے والی تلوار دیکھتا ہوں، تو آپ اور ٹرین دونوں یاد آجاتے ہیں۔ آج بھی سوچتا ہوں، کیا ہو گی کسی کے پاس، وہی کالے دستے والی تلوار جس پہ میرے ابا کی انگلیوں کے نشان ہون گے؟
مجھے یقین تھا، جس کسی نے ہمیں نقصان پہنچانے کی کوشش کی، آپ کے ہاتھوں پٹ جائے گا۔ میرے ابا، بٹالہ کے پٹیالوی پہلوان، میری حفاظت کے لیے کافی تھے۔
 دادا نے ایک بار پھر کہا، ’پتر، بیٹھ جا!‘ لیکن آپ نہ مانے۔ مردوں کا واویلا اور عورتوں کی چیخ و پکار قریب سے قریب تر آتی جا رہی تھی۔ دادا نے دوبارہ مجھے یاد دلایا، ’سراج، پتر، اکھاں نہ کھولیں! ساہ نیئں لینا، میرا  پتر!‘ میں نے سانس روک لیا۔
 میری ایک بہن رونے لگی، تو اماں نے اسے چپ کروانے کے لیے شش شش کہنا شروع کیا۔ اس دوران آپ نے تلوار کا دستہ دونوں ہاتھوں سے تھام کر سر کے اوپر بلند کر لیا۔ اب تو کوئی میرے ابا کے ہوتے ہوئے، میرا نقصان نہیں کر سکتا۔ دل کو تسلی دے کر میں نے انکھیں موندھ لیں۔

بچے بھالوں پر چڑھائے جا رہے تھے۔ لیکن مجھے یہ سب کہاں معلوم تھا؟ (فوٹو: اے ایف پی)

 دوسرے ڈبوں میں عورتوں کی عصمتیں لٹ رہی تھیں، مردوں کی لاشوں کو مسخ کیا جا رہا تھا، بچے بھالوں پر چڑھائے جا رہے تھے۔ لیکن مجھے یہ سب کہاں معلوم تھا؟
مجھے کئی برس بعد تک بھی یہی معلوم تھا کہ ٹرین میں ڈاکو گھس آئے ہیں جو لوگوں کی گیہوں کی بوریاں، شکر کے مرتبان اور گھی کے ڈول لوٹ کر لے جائیں گے۔ ہمارے پاس تو کچھ نہیں تھا۔ اماں کا زیور، اماں کی چھاتی سے چپکا تھا۔ ابا کی تلوار سب کے سر پہ سایہ کیے ہوئے تھی۔
میں نے دونوں ہاتھ کانوں پر رکھے، آنکھیں بھینچیں اور لمحے گننے لگا۔ لوہے کا فرش گڑ گڑ کانپ رہا تھا۔ آوازیں بالکل قریب آگئی تھیں، اور تلواروں کی سنسناہٹ میرے بند کانوں تک پہنچ رہی تھی۔ میں نے آپ کا نعرہ سنا تھا، ابا جی۔ ’اللہ اکبر!‘۔
 آپ کی آواز کے ساتھ سن سن کی آوازیں آیئں، اور لمحے بھر کو سناٹا چھا گیا۔ ڈاکوؤں کا لشکر آگے گزر گیا۔ اب اگلے ڈبوں سے چیخ و پکار آنے لگی تھی۔ مجھ سے آنکھیں نہ کھولی گیئں۔ دادا کی ہلکی سی آواز آئی،  [سراج، پتر، اکھاں نہ کھولیں۔ ‘
 دادا کی آواز لرز رہی تھی۔ انھوں نے میرے کرتے پر کچھ گیلا سا مل دیا۔ میں وہاں ہی لیٹا رہا، ابا جی۔ یہ سوچ کر کہ آپ سب بھی چپ بیٹھے ہیں، شاید پھر میں سو گیا۔ ڈاکوؤں کا ایک اور گروہ گزرا، پھر ایک اور۔ لیکن میں نے آنکھیں نہ کھولیں۔میری قمیض سوکھ گئ تھی۔ ٹرین رکی، تو دادا کی کانپتی ہوئی آواز آئی، ’سراج، اٹھ، پاکستان آگیا، پتر! اٹھ جا۔‘
میں نے آنکھیں کھولیں تو ابا جی، آپ فرش پر اوندھے منہ لیٹے تھے، میری ماں بھی خون میں لت پت مر چکی تھی اور میری ننھی منھی بہنوں کے جسم دو دو حصوں میں کٹے پڑے تھے۔ میری قمیض پر آپ کا خون تھا جو دادا نے فرش سے اٹھا کر مجھ پر مل دیا تھا تاکہ  دکھنے میں، میں بھی ایک لاش ہی لگوں۔
 ٹرین کے دروازے کھلے، آخری ٹرین تھی، اس لیے ہمیں وصول کرنے والوں کا زیادہ غل نہیں تھا۔ شاید۔

’کل مجھے ہارٹ اٹیک ہوا تھا۔ آج ہسپتال میں ہوں۔ شاید گھر واپس نہ جا سکوں۔‘ (فوٹو: پیکسل)

’کوئی زندہ ہے؟‘ آوازیں آنے لگیں تو دادا اٹھ کھڑے ہوئے۔ مجھے بھی اٹھا لیا اور ٹرین سے باہر نکل آئے۔ 
ابا جی، میں 65 سال کا ہوں۔ انگریزی کا پروفیسر تھا، چند سال قبل ریٹائر ہوا۔ پاکستان کی مٹی میں آپ کی خوشبو آتی ہے، لیکن خون آلود قمیض کی بو، اور کیمپ کے دن بھلانے کی کوشش میں دنیا گھومتا رہا ہوں۔
خدا نے بھی ساتھ دیا ہے۔  لندن، پیرس، ہالینڈ، بحرین، ایران، افغانستان، سعودیہ، امریکہ، افریقہ، بہت جگہوں پہ گھوما۔ شادی کی، اولاد کو بھی پڑھایا لکھایا۔ پہلوانی نہیں سیکھ پایا لیکن ٹی وی پر انگریزی دنگل ضرور دیکھتا ہوں۔
 کل مجھے ہارٹ اٹیک ہوا تھا۔ آج ہسپتال میں ہوں۔ شاید گھر واپس نہ جا سکوں، لیکن آپ سے یہ کہنا تھا ابا جی، ملکوں ملکوں گھوم کر بھی، آپ جیسا کوئی نہیں دیکھا۔ اللہ آپ کے درجات بلند کرے۔
ملتے ہیں ابا جی، جلد ملتے ہیں۔
واسلام
آپ کا سراج

شیئر: