Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’سفر مشکل لیکن حوصلہ پہاڑ ہلا ڈالتا ہے‘

ضحیٰ ملک شیر سی ایس ایس میں کامیابی پانے والی پانچویں بہن ہیں (فوٹو: اردو نیوز)
پاکستان میں سینٹرل سپیریئر سروسز (سی ایس ایس) 2019 کے نتائج اور کامیاب امیدواروں کے محکموں کا اعلان ہوا تو کامیاب ہونے والوں کے لیے مبارک باد کے سلسلے نے ٹرینڈ کی شکل اختیار کر لی۔
سرکاری شعبے کی ملازمت بالخصوص سینٹرل سپیریئر سروسز (سی ایس ایس) کے امتحان میں کامیابی اور متعلقہ شعبوں کی پیشہ وارانہ زندگی بہت سوں کی ترجیح ہوتی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ کامیاب امیدواروں کے ناموں کا اعلان ہوا تو ان سے متعلق گفتگو بہت سے دیگر افراد کو بھی اپنی جانب متوجہ کر گئی۔
حالیہ نتائج میں کامیاب ہونے والے افراد کا اجتماعی اور انفرادی ذکر ہوا، کئی نے خود اپنی کامیابی اور اس سے وابستہ جدوجہد کا تذکرہ کیا البتہ بلوچستان کی ایک خاتون امیدوار اور دو گھرانے ایسے تھے جن کے افراد کی کامیابی کو بہت سے لوگ سراہتے دکھائی دیے۔
سی ایس ایس 2019 کے نتائج میں سرفہرست رہنے والے رانا حیدر طاہر تیسرے بھائی ہیں جو سول سروس کا امتحان پاس کر کے اس شعبے کا حصہ بنے ہیں۔ اس سے قبل ان کے دو بڑے بھائی رانا موسیٰ طاہر اور رانا حسین طاہر سی ایس ایس میں کامیابی کے بعد اپے شعبوں میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔

خیبرپختونخوا کے ضلع ہری پور سے تعلق رکھنے والے اور طویل عرصے سے راولپنڈی میں مقیم ملک رفیق اعوان کے گھرانے کی پانچویں بیٹی ضحیٰ ملک شیر بھی کامیاب امیدواروں کی فہرست کا حصہ بنیں۔ ان سے قبل چار بڑی بہنیں لیلیٰ ملک شیر، شیریں ملک شیر، سسی ملک شیر اور ماروی ملک شیر کامیابی حاصل کر کے مختلف مقامات پر اپنی ذمہ داریاں ادا کر رہی ہیں۔
 

گذشتہ برس سی ایس ایس کے تحریری امتحان میں کامیابی حاصل کرنے والی ضحیٰ ملک شیر نے اردو نیوز سے گفتگو میں بیٹیوں کی پیدائش سے متعلق معاشرتی رویوں کا ذکر کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ جب ان کی پیدائش ہوئی اور ان کے والد ہسپتال ان کو دیکھنے آئے تو ان کے رشتے دار پانچویں بیٹی کی پیدائش پر انتہائی افسردہ تھے۔ تاہم ضحیٰ کا کہنا ہے کہ سی ایس ایس کے امتحان میں کامیابی کے بعد ان کے والد کا کہنا ہے کہ ’تمہاری پیدائش کی مبارک بادیں تمہیں آج مل رہی ہیں۔‘
بلوچستان سے کامیاب ہونے والے سی ایس ایس امیدواروں میں سرفہرست فرویٰ بتول رہیں۔ مجموعی امیدواروں میں نویں پوزیشن حاصل کرنے والی فرویٰ بتول کا تعلق ہزارہ برادری سے ہے۔
 

سوشل میڈیا صارفین نے جہاں کامیاب امیدواروں کو مبارک باد دی اور رہ جانے والوں کو کامیابی کی امید زندہ رکھنے کی ہمت دلائی وہیں دیگر موضوعات پر گفتگو بھی کی۔
2017 سے اب تک سی ایس ایس کے تین امتحانات میں ٹاپ پوزیشن لینے والے امیدواروں کا ذکر ہوا تو ان کی بیرون ملک تعلیم بھی گفتگو کا حصہ بنی۔ ایسے میں کچھ صارفین نے سوال کیا کہ بیرون ملک سے تعلیم یافتہ افراد اگر سرفہرست رہ سکتے ہیں تو ایسی تعلیم مقامی سطح پر کیوں نہیں دی جا سکتی؟
 

گلگت بلتستان کے سیکرٹری داخلہ محمد علی رندھاوا نے کامیاب امیدواروں کو مبارکباد دی تو نصیحت بھی کی کہ ’سفر مشکل ہے لیکن ہمت و حوصلہ اور دلجمعی پہاڑوں کو بھی ہلا ڈالتی ہے‘۔
 

کامیابی کے پس پردہ داستان سے دوسروں کو آگاہ کرنے والے کچھ امیدوار ایسے بھی تھے جو اپنی مشکلات کے ساتھ معاشرتی رویوں کا ذکر کرتے رہے۔
 

سی ایس ایس امتحان میں کامیابی پانے والی ماریہ ارشد نے اس منزل تک پہنچنے کی اپنی جدوجہد کا ذکر کیا تو اپنے خاندان کی پہلی گریجویٹ اور پہلی سی ایس ایس امیدوار ہونے پر خوشی کا اظہار کیا۔

پاکستان میں سی ایس ایس امتحانات فیڈرل پبلک سروس کمیشن کے تحت منعقد کیے جاتے ہیں۔ کامیاب امیدواروں کو گریڈ 17 میں مختلف محکموں میں تعینات کیا جاتا ہے۔ 21 تا 30 برس کی عمر کے ایسے افراد جنہوں نے سیکنڈ ڈویژن میں گریجویشن کر رکھا ہو سی ایس ایس امتحان میں شریک ہو سکتے ہیں۔
17 جون کو فیڈرل پبلک سروس کمیشن کی جانب سے 365 کامیاب امیدواروں کے ناموں کا اعلان کیا گیا تو ساتھ ہی 214 کے محکموں کا اعلان بھی ہوا ہے۔
  • واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ جوائن کریں

شیئر: