Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’ہم بھی جعلی پائلٹس چھپاتے؟‘

پی آئی اے پائلٹس کے جعلی لائسنس کا معاملہ پاکستان سمیت بیرون ملک بھی زیربحث ہے (فوٹو سوشل میڈیا)
پاکستان کے وزیر ہوابازی غلام سرور خان کے پی آئی اے سے متعلق بیان کے بعد قومی ایئرلائن کو پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا تو سوشل میڈیا نے کہیں سابقہ حکومتوں اور کہیں وزیرہوابازی کو اس کا ذمہ دار قرار دیا۔
وزیر ہوابازی غلام  سرور خان کی جانب سے چند روز قبل پارلیمنٹ میں خطاب کے دوران انکشاف کیا گیا تھا کہ پی آئی اے میں سینکڑوں پائلٹس جعلی اسناد رکھتے ہیں۔ وہ کراچی میں پی آئی اے طیارہ حادثے کی رپورٹ پر گفتگو کر رہے تھے۔
ایوان میں ذکر ہونے کے بعد قومی ہوا باز ادارے نے متعدد پائلٹس کو کام کرنے سے روک دیا تھا۔ جعلی لائسنسوں کا معاملہ سامنے آنے کے بعد یورپی یونین ایئر سیفٹی ایجنسی نے بھی پی آئی اے کے یورپی ممالک کے لیے فضائی آپریشن کے اجازت نامے کو چھ ماہ کے لیے معطل کر دیا ہے۔
سوشل میڈیا صارفین پی آئی اے پائلٹس سے متعلق وزیرہوابازی کے اعلان اور اس کے ملکی و بین الاقوامی نتائج کے معاملے پر تقسیم دکھائی دیے۔ کچھ کا موقف تھا کہ مسئلہ سلجھانے کے لیے درست طریقہ اختیار کیا گیا ہے جب کہ دیگر کے نزدیک حکومتی انداز سے قومی ہوا باز ادارے کو نقصان ہوا ہے۔
 

پاکستان پیپلزپارٹی کی رہنما پلوشہ خان نے معاملے پر تبصرہ کیا تو لکھا کہ ’73 سال میں پی آئی اے کا اتنا نقصان نہیں ہوا جتنا وزیر ہوابازی نے ایک جھٹکے میں کر دیا‘۔
 

ن لیگ کے قومی اسمبلی میں پارلیمانی لیڈر خواجہ محمد آصف نے اپنے تبصرے میں لکھا کہ ’حکومتی بیانات سے پی آئی اے کو دانستہ برباد کر کے اونے پونے داموں بیچنے کی تیاری‘۔
 

سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے یو کے سول ایوی ایشن اتھارٹی کی جانب سے برمنگھم، مانچسٹر اور لندن سے پی آئی اے کی پروازوں پر پابندی عائد کرنے کی اطلاع ٹویٹ کی اور ساتھ ہی حکومت پر تنقید کی تو جواب میں وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے سیاسی ابلاغ شہباز گل نے لکھا کہ ’آپ چاہتے ہیں کہ ہم بھی جعلی پائلٹس چھپاتے۔‘
 

جاوید حیدر نامی صارف نے قومی ایئرلائن کی خراب حالی کی وجوہات کا ذکر کرتے ہوئے لکھا کہ ’ان (پائلٹس) کو بھرتی کرنے والوں نے (ادارہ) برباد کیا۔ ان پائلٹس سے تنخواہ واپس لی جائے، بھاری جرمانے کیے جائیں۔

گفتگو کا حصہ بننے والے کچھ صارف ایسے بھی تھے جو معاملہ پبلک کرنے یا نہ کرنے پر بات کے بجائے آئندہ کے ممکنہ اقدامات زیربحث لائے۔ اعظم جمیل نے لکھا کہ ‘یہ وقت ہے کہ ماضی کی خوبصورت ایئرلائن کو نئے سرے سے تعمیر کیا جائے‘

موضوع کوئی بھی ہو یہ مشکل لگتا ہے کہ سوشل میڈیا صارفین کے ہتھے چڑھنے کے بعد اس میں مزاح کا تڑکہ نہ لگے۔ یہاں بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ چند صارفین یورپی فلائٹس کی بندش کا سامنا کرنے والی قومی ایئرلائن کو نئے ڈومیسٹک روٹس تجویز کر کے ان پر پروازیں شروع کرنے کی تجاویز دیتے رہے۔

چند روز قبل ہوابازی ڈویژن کے ترجمان عبدالستار کھوکھر نے اردو نیوز کو بتایا تھا کہ پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائن نے مشکوک اسناد اور لائسنس کے معاملے پر 141 پائلٹس کو فوری طور پر گراؤنڈ کرتے ہوئے ان کے خلاف تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے۔
کراچی میں پی آئی اے طیارہ حادثے کے متاثرین اور حادثے کے اسباب بھی سوشل میڈیا صارفین کی گفتگو کا حصہ رہے۔ آفتاب آفریدی نامی صارف نے حادثے میں اپنی اہلیہ اور تین بچے کھونے والے شخص کے اپنے پیاروں کی قبروں پر لکھے پیغامات ٹویٹ کیے تو لکھا کہ ’عارف اقبال فاروقی نے اس حادثے میں سب کچھ کھو دیا، صرف اور صرف چند لوگوں کی نااہلی اور کوتاہی کے سبب‘۔
 

ابتدائی بیان کے بعد 26 جون کو وزیر ہوابازی غلام سرور خان نے معاملے پر گفتگو کی۔ انہوں نے کہا تھا کہ 262 مشکوک لائسنس رکھنے والے پائلٹس میں سے 28 کے لائسنس جعلی ثابت ہو گئے ہیں جن کے خلاف ایکشن ہو گا۔ ان کے مطابق ’جعلی ڈگریوں والے ملازمت سے ہی فارغ نہیں ہوں گے بلکہ ان کے خلاف کریمنل کیسز کے لیے بھی ایف آئی اے کو لکھا جائے گا۔‘
انہوں نے یہ بھی کہا کہ ’جعلی لائسنس کی بات پر کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ اس سے منفی تاثر ابھرا تاہم یہ ضروری تھا۔ ’مریض کو بچانے کے لیے اس کی میجر سرجری بھی کرنا پڑتی ہے ریڈی ایشن بھی ہوتی ہے اور کیمو بھی۔‘
  • واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ جوائن کریں

شیئر: