Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’مائنس عمران ‘ کا مطالبہ غیر جمہوری نہیں: خواجہ آصف

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قومی اسمبلی میں پارلیمانی لیڈر خواجہ محمد آصف نے کہا ہے کہ مائنس عمران خان کا مطالبہ غیر جمہوری مطالبہ نہیں۔ ہم کسی بیرونی قوت سے عمران خان کو ہٹانے کا مطالبہ نہیں کر رہے بلکہ تحریک انصاف سے کہہ رہے ہیں کہ جمہوریت کی بالادستی اور حالات میں بہتری کے لیے عمران خان کی جگہ کسی اور کو اپنا لیڈر چن لے۔
اردو نیوز کے ساتھ خصوصی انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ عمران خان کی موجودگی میں پارلیمنٹ ’عضو معطل‘ بن گئی ہے۔ ملک میں حکومت کی تبدیلی جب بھی ہوگی آئین میں موجود طریقہ کار کے تحت ہی ہوگی۔
خواجہ  آصف کا کہنا ہے کہ ’ہم سمجھتے ہیں کہ وزیراعظم کی ساکھ سو فیصد ختم ہوچکی ہے یعنی صفر ہے۔ وزیراعظم خود ایک بھی وعدے کی تکمیل نہ کر سکے جو اقتدار میں آ کر انہوں نے دہرائے۔ میں سو، دس یا پچاس کی بات نہیں کر رہا، کریڈیبیلٹی ان کی زیرو ہو پارلیمنٹ میں وہ آتے نہ ہوں اور دو دو تین تین دن کے بعد وہ اپنی خود ہی تردید کرتے ہوں، اس کو ہٹانا ناگزیر ہے۔‘

 

انھوں نے کہا کہ ’میں سمجھتا ہوں کہ اگر جمہوریت کا تسلسل چاہیے یا موجودہ حالات سے ریکوری چاہیے تو مائنس ون مائنس ہونا چاہیے۔ پی ٹی آئی متبادل قیادت لے آئے۔ کم از کم ان کی موجودگی میں پی ٹی آئی وقتا فوقتا ہمارے ساتھ جو گفت و شنید کرتی تھی کسی ایک جگہ بھی حکومتی پارٹی ہمارے ساتھ جس پر رضا مندی ظاہر کرتی تھی وہ ایک بات بھی عمران خان سے نہیں منوا سکے۔ وزیر اعظم اپنی پارٹی کے اکابرین کی راہ میں بھی رکاوٹ بنے۔‘
خواجہ آصف نے کہا کہ ’ہم کہتے ہیں کہ ٹھیک ہے پارلیمنٹ کو چلنا چاہیے اچھی طرح چلنا چاہیے، پرفارمنس ہونی چاہیے۔ لیکن اس بندے کی موجودگی میں پارلیمنٹ عضو معطل ہو کر رہ گئی ہے۔‘
اس سوال کے جواب میں کہ عمران خان کو ہٹا کر ملک میں ایک اور وزیر اعظم کو اس کی مدت پوری نہ کرنے دینے کے ڈیزائن کو تقویت نہیں ملے گی؟ خواجہ آصف نے کہا کہ ’مائنس عمران خان کی بات کرکے میں نے کوئی غیر جمہوری بات نہیں کی۔ میں اگر کہتا ہوں کہ پی ٹی آئی اپنا لیڈر چینج کرے تو اس میں غیر جمہوری کیا ہے؟ میں کون سا کہتا ہوں کہ کوئی باہر سے قوت آ کر چینج کرے بلکہ کہتا ہوں کہ پی ٹی آئی خود کرے۔'
چھ ماہ کی مہلت کے حوالے سے خواجہ آصف نے کہا کہ ’میں اوپن اینڈڈ جدوجہد کا قائل ہوں۔ میں جدوجہد کو کسی عرصے میں محدود نہیں کرتا۔ میں ایک سیاسی ورکر ہوں۔ میری جدوجہد جمہوری معاشرے کے آئین کی بالادستی کے مقاصد پوری نہیں ہوتے یہ جدوجہد چلتی رہے گی۔ اس میں یہ غیر متعلقہ ہے کہ کوئی چار مہیںے رہتا ہے یا چھ مہینے لیکن ہم وارننگ ضرور دے رہے ہیں کہ دو سال میں جو تباہی ہوئی ہے پاکستان اس کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ معاشی لحاظ سے بھی، سیاسی لحاظ سے بھی اور ترقیاتی لحاظ سے بھی۔ گزشتہ دو سالوں میں کسی ایک جگہ ایک اینٹ نہیں لگی۔‘

خواجہ آصف نے کہا کہ انھوں نے کہا کہ 'تحریک انصاف اپنا لیڈر تبدیل کرلے۔‘ (فوٹو: اے ایف پی)

ایک سوال کے جواب میں خواجہ آصف نے کہا کہ 'حکومت کی تبدیلی کا طریقہ کار حالات خود بنا دیتے ہیں۔ انسان جدوجہد ضرور کرتا لیکن جو بھی طریقے ہونے چاہیں وہ آئینی ہوں۔ غیر آئینی طریقے کی ہم کبھی بھی حمایت نہیں کریں گے۔'
انھوں نے کہا کہ 'تحریک انصاف اپنا لیڈر تبدیل کرلے۔ جس طرح انھوں (عمران خان) نے خود کہا کہ میرے بعد میری پارٹی جدوجہد جاری رکھے گی بالکل ٹھیک بات ہے۔ اپنی پارٹی میں سے کسی دوسرے بندے کو آگے لے آئیں۔ یا پھر حکومت اکثریت کھو دیتی ہے ان کے اتحادی ان کا ساتھ چھوڑ دیتے ہیں جیسے بجٹ میں بھی سادہ اکثریت سے بارہ ووٹ کم تھے اکثریت کھونے کے بعد نئی حکومت بنے یا ہم تحریک عدم اعتماد لے آئیں یہ سب آئینی طریقے ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ 'یہ بھی ایک طریقہ ہے کہ وزیر اعظم سمجھتے ہیں کہ انھیں نئے مینڈیٹ کی ضرورت ہے اور نئے انتخابات ہونے چاہئیں یہ بھی ایک آئینی طریقہ ہے۔ آئین کی پاسداری اس ملک میں مستند طریقہ ہے تو اسی کے تحت جو طریقے ہیں ان پر عمل در آمد ہونا چاہیے۔‘
انھوں نے کہا کہ 'شہباز شریف کی جانب سے وزیر اعظم بنائے جانے والے انٹرویو اور بیان کی وضاحت آ چکی ہے۔ ان کی وطن واپسی کا فیصلہ لندن میں میری موجودگی میں ہوا البتہ پروزاوں کی بندش کے باعث ان کو جلدی آنا پڑا۔'

’ پارلیمنٹ میں ہماری اپوزیشن جماعتوں کی کارکردگی بڑی موثر رہی ہے۔‘ (فوٹو: اے ایف پی)

خواجہ آصف نے کہا کہ 'میں بار بار ن لیگ کی جانب سے اور دیگر اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے بھی یقین دہانی کرا رہا ہوں کہ ہم کسی غیر جمہوری اقدامت کی کبھی حمایت نہیں کریں گے۔ ہم چاہتے ہیں کہ یہاں جمہوری معاشرہ فروغ پائے۔ جمہوری طریقے سے ہماری حکومت جاتی ہے تو چلی جائے، جمہوری طریقے سے ہم حکومت میں آجاتے ہیں بسم اللہ، یہ چیزیں جمہوری معاشرے کے لیے بنیادی بات ہے کہ حکومت کے آنے جانے کا فیصلہ آئین کرے نہ کہ غیر جمہوری یا ماورائے قانون کے طریقے سے اس کا تعین ہو۔‘
گزشتہ دو سال میں اپوزیشن کی کارکردگی سے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں خواجہ آصف نے کہا کہ ' کارکردگی کے بہت سے پہلو ہوتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ پارلیمنٹ کے اندر ہماری اپوزیشن جماعتوں کی کارکردگی بڑی موثر رہی ہے۔ اس بجٹ میں دیکھ لیں ن لیگ کے 47 اراکین  اس بجٹ پر بولے ہیں۔ 29 لوگ بیماری، کورونا یا مختلف وجوہات کی وجہ سے غیر حاضر رہے۔ ہماری تعداد 150 151 کے قریب موجود رہی۔ ہمیں بندے ڈھونے نہیں پڑے جس طرح حکومت نے کورونا سے جو بندے ریکور کر رہے تھے ان کو بھی لایا گیا۔'
انھوں نے کہا کہ 'ہماری دو سالہ کارکردگی اچھی ہونے کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ وزیر اعظم ہاؤس میں آنے سے ڈرتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ اپوزیشن نے اپنا وجود منوایا ہے۔  ہم نے ان کی شان میں کوئی گستاخی نہیں کی سیاسی تنقید تو ہمارا حق ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے ہماری موجودگی میں اثر ہے کہ وہ یہاں آنے سے کتراتے ہیں جب ہم چلے جاتے ہیں تو وہ آتے ہیں یا بولتے ہیں تو فوراً چلے جاتے ہیں۔‘
خواجہ آصف نے کہا کہ 'دوسرا پیمانہ یہ کہ پی ٹی آئی حکومت میں ہم نے صعوبتیں جو بھی سیاسی ورکر پر آتی ہیں ان کو خندہ پیشانی سے برداشت کیا ہے۔ رانا ثنا اللہ نے نیب، اے این ایف کو فیس کیا، ایف آئی اے کو فیس کیا۔ سب چیزوں کا ثابت قدمی کے ساتھ سامنا کیا ہے۔‘

’میں سمجھتا ہوں کہ اپوزیشن آہستہ آہستہ زیادہ جگہ بنا رہی ہے اور حکومت پیچھے ہٹ رہی ہے۔‘ (فوٹو: اے ایف پی)

انھوں نے کہا کہ 'اپوزیشن کی قیادت قربانی دینے اور صعوبتیں سہنے میں سرفہرست ہے۔ میاں نواز شریف لے لیں، پیپلز پارٹی میں آصف زرداری صاحب لے لیں۔ میاں نواز شریف کا سارا خاندان بشمول شہباز شریف، مریم نواز، حمزہ، عباس شریف یہ سارے میں سمجھتا ہوں کہ ہماری تاریخ کا ایک ایسا باب ہیں کہ ہم نے مزاحمت دکھائی ہے۔'
ان کا کہنا تھا کہ 'حکومت کی غلط پالیسیوں کے خلاف یکطرفہ ایکشن لیے گئے۔ ہم ثابت قدمی کے ساتھ دو سال سے مقابلہ کر رہے ہیں اورحکومت دن بدن کمزور ہو رہی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اپوزیشن آہستہ آہستہ زیادہ جگہ بنا رہی ہے اور حکومت پیچھے ہٹ رہی ہے۔ خصوصا اس بجٹ کے بعد تو حکومت کی مقبولیت ختم ہوگئی ہے۔‘

شیئر: