Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اسلام آباد کورونا کے خلاف جنگ جیت رہا ہے؟

جون کے وسط میں عالمی ادارہ صحت کی جانب سے پاکستان میں آبادی کے لحاظ سب سے زیادہ کورونا کیسز والا شہر قرار دیے جانے کے بعد اسلام آباد کے شہریوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی تھی اور اسلام آباد کی ضلعی انتظامیہ اور ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفس نے ہنگامی طور پر شہر کے متعدد علاقوں میں مکمل لاک ڈاؤن کا نفاذ کر دیا تھا۔
ان اقدامات کے دو ہفتوں کے بعد اب اسلام آباد میں روزانہ سامنے آنے والے نئے کورونا کیسز کی تعداد نہ صرف کم ہو رہی ہے بلکہ کورونا سے صحتیاب ہونے والے افراد کا تناسب 66 فیصد ہو چکا ہے۔
ڈی ایچ او اسلام آباد ضعیم ضیا کا دعویٰ ہے کہ اسلام آباد میں کورونا کے کیسز اب زوال پذیر ہیں۔ ’یہ میں نہیں کہہ رہا اعداد وشمار کہہ رہے ہیں۔ دو جولائی کو ہمارے ایکٹیو کیسز 4 ہزار 3 سو کے قریب ہیں جبکہ صحت یاب ہونے والے مریضوں کی تعداد 8 ہزار 6 سو سے زائد ہے اور کل 129 اموات ہوئی ہیں۔‘

 

ان کا کہنا تھا کہ اسلام آباد میں کورونا سے شرح اموات ایک فیصد سے بھی کم ہے۔
تاہم اردو نیوز سے خصوصی بات کرتے ہوئے  ڈی سی اسلام آباد حمزہ شفقات نے بتایا کہ عید سے قبل اسلام آباد صرف دو تین ہزار کیسز تھے جبکہ عید کے چند دنوں بعد دس ہزار کورونا کیسز سامنے آ گئے تھے جس کی وجہ سے ایک بحرانی کیفیت پیدا ہوگئی اور ہسپتالوں میں ادویات کی قلت بھی پیدا ہوگئی جس کے بعد تین چار بہت اہم فیصلے کیے گئے۔
ڈی سی کے مطابق ایک تو انتظامیہ نے مختلف اداروں سے گاڑیاں کرائے پر لیں اور ان میں ڈاکٹرز اور رضا کار وغیرہ بٹھا کر ریپڈ ریسپانس ٹیمیں  تیار کیں جو کسی بھی کورونا کے کیس کے سامنے آنے کے بعد اس سے مل کر اسے گھر پر ہی قرنطینہ کر دیتے تھے جس کی وجہ سے دوسرے لوگوں تک کورونا کا پھیلاؤ رک جاتا تھا۔
’اس کے بعد ٹیسٹنگ پر فوکس کیا گیا اور اسلام آباد میں ایک لاکھ سے زائد ٹیسٹ کورونا کے ٹیسٹ ہوئے۔ اتنے ہی ٹیسٹ پورے صوبہ خیبرپختونخواہ میں ہوئے۔ اس کے باجود باقی تمام علاقوں میں ہم سے زیادہ کیسز ہیں اور آبادی کے تناسب سے سب سے زیادہ ٹیسٹ اسلام آباد میں ہوئے۔‘
حمزہ شفقات نے بتایا کہ تیسری چیز تھی کورونا کے حوالے قواعدوضوابط جیسے ماسک اور سماجی فاصلہ وغیرہ اس حوالے سے اسلام آباد انتظامیہ نے سختی سے عمل درآمد یقینی بنایا۔ مختلف ٹیمیں بنائی گئیں اور رضاکاروں کو ساتھ ملا کر ایکشن لیا گیا جس کی تفصیلات روز میڈیا کو فراہم کی جاتی ہیں۔ دکانیں، ہوٹل سیل کیے گئے مساجد اور مارکیٹس میں ایس او پیز پر عمل یقینی بنایا گیا۔
 ’اس کے بعد مختلف سیکٹرز کو سیل کیا گیا جس میں جی نائن، آئی ایٹ، آئی ٹین، جی سکس، جی سیون، جی ٹین اور غوری ٹاؤن کو سیل کیا گیا اور یہ پالیسی ابھی بھی جاری ہے اور جاری رہے گی۔‘

ڈی سی اسلام آباد کے مطابق عید کے چند دنوں بعد دس ہزار کورونا کیسز سامنے آ گئے تھے (فوٹو: اے ایف پی)

ڈپٹی کمشنر نے بتایا کہ ان تمام اقدامات کی وجہ سے ہم کیسز کم کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں تاہم ڈی سی اسلام آباد نے واضح کیا کہ ابھی وفاقی دارالحکومت میں کورونا کی ’پیک‘ یا بلندی نہیں آئی۔
’جو لوگ سمجھ رہے ہیں کہ پیک آ کر کم ہو گئی ہے (انہیں معلوم ہونا چاہیے ) کہ ایسے نہیں ہوتا۔ یہ پیک دوبارہ آ جائے گی اگر عیدالاضحی کے دوران لوگوں نے احتیاط نہیں کی اور اس کے بعد محرم بھی ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’یہ دو چیلنجز ہیں اگر لوگوں نے ان دو مواقع پر احتیاط کر لی اور ہم اپنے کیسز کم کرنے میں کامیاب ہوئے تو پھر اس کا مطلب ہے اسلام آباد میں کورونا کا گراف نیچے آ گیا ہوگا اور پھر ہم لوگ نارمل زندگی گزار سکتے ہیں۔
’سماجی فاصلے کے ساتھ پھر اپنا ہر کام کر سکتے ہیں پھر کوئی منفی لسٹ نہیں ہوگی شادی ہال وغیرہ بند کرنے کی ضرورت نہیں ہو گی۔ لیکن اگر ہم عیدالاضحی اور محرم پر ناکام ہوئے تو بہت بڑا چیلنج ہو گا۔‘
اسلام آباد میں شرح اموات کم ہونے کی وجہ کیا ہے؟
ڈی ایچ او اسلام آباد اور فل برائیٹ سکالر ضعیم ضیا کی کورونا کے خلاف کاوشوں کی تعریف امریکی وزیر خارجہ مائیک پامپیو بھی کر چکے ہیں۔

ضیغم کے مطابق  ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ کی ٹیمیں انہیں افراد کے سیمپل لیتی ہیں جو زیادہ خطرے کا شکار ہوتے ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

 ضعیم کا کہنا ہے کہ جس طرح سے اسلام آباد میں ڈی سی اسلام آباد اور ان کی ہیلتھ ٹیموں نے کورونا کے خلاف سائنسی بنیادوں پر لڑائی لڑی ہے وہ نہ صرف ملک بھرکے لیے ماڈل ہے بلکہ کچھ یورپی سفارتکاروں نے بھی اس کی تعریف کی ہے۔
’ہمارے ہاں شرح اموات کے ایک فیصد سے بھی کم ہونے کی بڑی وجہ ہماری فوری مدد کرنے والی 24 ٹیمیں ہیں جو ہر وقت شہر میں کورونا کے مریضوں سے رابطہ رکھتی ہیں اور جوں ہی گھروں میں موجود مریضوں کی حالت بگڑنے کی اطلاع ملے اسے فوری طور پر ہسپتال پہنچایا جاتا ہے اور بروقت طبی امداد سے کئی جانیں بچائی جا رہی ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ان کی سولہ الگ ٹیمیں ہر روز 450 سے 500 ایسے افراد کا انتخاب کرتی ہیں جن میں کورونا کا شبہ ہو سکتا ہے جیسے ان کے کسی رشتہ دار کو کورونا ہو چکا ہو یا پھر وہ کورونا کے متاثرہ علاقے میں رہتے ہوں وغیرہ۔
ایسے تمام افراد کے ٹیسٹ کیے جاتے ہیں اور حیرت انگیز طور پر ٹیسٹ مثبت آنے کی شرح کافی زیادہ ہوتی ہے اور ہر سو میں 23 افراد مثبت نکلتے ہیں۔ اس کی وجہ ان کے خیال میں یہ ہے کہ ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ کی ٹیمیں انہی افراد کے سیمپل لیتی ہیں جو زیادہ خطرے کا شکار ہوتے ہیں۔ اس طریقے سے اب تک 18 ہزار ٹیسٹ صرف ڈی ایچ او آفس کی ٹیمیں کر چکی ہیں۔

شیئر: