Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’نان الیکٹڈ کو بھی الیکٹڈ نے منتخب کیا‘

پاکستان کے وفاقی وزیر برائے مذہبی امور پیر نورالحق قادری نے کابینہ میں وزرا کے درمیان منتخب اور غیر منتخب کی بحث کو غیر ضروری قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ کابینہ میں ’نان الیکٹڈ‘ کو بھی ’الیکٹڈ‘ نے ہی منتخب کیا ہے کیونکہ سب کچھ وزیراعظم کی مرضی سے ہی ہوتا ہے۔
اردو نیوز سے ایک خصوصی انٹرویو میں وفاقی کابینہ کے اہم رکن کا کہنا تھا کہ عمران خان کی موجودگی میں مائنس ون سے مائنس آل ہو جائے گا۔
مزید پڑھیں
نورالحق قادری نے کہا کہ ’میرے خیال میں (منتخب اور غیر منتخب کابینہ ارکان کی) بحث میں پڑنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ’نان الیکٹڈ‘ کا انتخاب بھی ’الیکٹڈ‘ ہی کرتا ہے۔ وزیراعظم منتخب ہیں انہوں نے اپنی ٹیم کا انتخاب کرنا ہے۔ مثلاً ایک خاص شعبے کے لیے آپ کو پارلیمنٹ کے اندر سے اس طرح کا ایکسپرٹ نہیں ملتا جو کہ آپ کو کہیں باہر سے ملتا ہے تو اسے کیوں نہ شامل کریں، اور اپنا کام چلائیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’اس حوالے سے ہماری حکومت میں مجھے کوئی فرق نظر نہیں آتا۔ ظاہر ہے فیصلے وزیراعظم نے کرنے ہوتے ہیں اور آخری رائے ان کی ہوتی ہے، خواہ وہ تجویز الیکٹڈ کی طرف سے آئے یا یا نان الیکٹڈ کی طرف سے آئے۔‘

پیر نور الحق قادری نے کہا کہ آخری رائے وزیراعظم کی ہوتی ہے، خواہ وہ تجویز الیکٹڈ کی طرف سے آئے یا یا نان الیکٹڈ کی طرف سے آئے۔‘ (فوٹو:اے ایف پی)

ایک اور سوال پر ان کا کہنا تھا کہ عمران خان کی موجودگی میں ’مائنس ون‘ تو ’مائنس آل‘ ہو جائے گا، کیونکہ عمران خان کے بغیر پی ٹی آئی کا ووٹر اور پی ٹی آئی کا ورکر اور پی ٹی آئی کا رکن پارلیمنٹ کسی کو اس طرح قبول نہیں کرے گا اور جب اکثریتی پارٹی باہر ہو جاتی ہے تو پھر وہ ایوان کیسے چلے گا؟ یہ کہنا مشکل لگتا ہے۔‘
مندر یا مسجد کی تعمیر کے لیے وزارت کے پاس کوئی فنڈ نہیں
اس سوال پر کہ اسلام آباد میں مندر کی تعمیر پر ان کی وزارت کا کیا موقف ہے، نورالحق قادری کا کہنا تھا کہ وزارت کو علما کی طرف سے بھیجے گئے اعتراضات میں سرکاری فنڈنگ پر سوال اٹھایا گیا تھا مگر مندر کی تعمیر پر کسی کو اعتراض نہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’مندر کے حوالے سے پلاٹ 2017 میں الاٹ ہوا تھا اور پھر اس پر اسلام آباد میں ہندو کمیونٹی کی پنچائیت کمیٹی اور اقلیتی ایم این ایز نے ہم سے رابطہ کیا اور فنڈز کے لیے کہا تو ہم نے کہا کہ ہمارے پاس کوئی فنڈز موجود نہیں ہیں ہم صرف مرمت و تزئین آرائش کے لیے فنڈز دیتے ہیں۔'
انہوں نے بتایا کہ 'کوئی نئی عمارت کھڑی کرنے کے لیے اقلیتوں کے حوالے سے یا حتی کہ مساجد کی تعمیر کے لیے بھی ہمارے پاس کوئی ایسا فنڈ موجود نہیں ہے۔‘

وفاقی وزیر نے کہا کہ ہندو کمیونٹی نے اپنے وسائل سے مندر کا تھوڑا کام شروع کیا تھا (فوٹو: لال چند)

’پھر انہوں نے کہا کہ تو ہم نے ان کی وہ درخواست وزیراعظم کو بھیج دی۔ اس پر کچھ پیش رفت نہیں ہوئی تھی۔ نہ فنڈز منظور ہوئے تھے اور نہ کوئی وزیراعظم ہاؤس سے منظوری آئی تھی کہ یہاں پر لوگوں نے شور شرابہ شروع کیا۔‘
پیر نورالحق قادری کے بقول ’ہندو کمیونٹی نے اپنے وسائل سے تھوڑا کام شروع کیا تھا، اور بنیادیں رکھنی شروع کر دی تھیں۔ اس میں حکومت کا کوئی پیسہ نہیں تھا تو اس پر پھر یہ سوال علما کی طرف سے آنے لگے کہ آیا اسلامی ریاست میں یا پاکستان جیسے ملک میں جہاں اقلیتوں کی عبادت گاہ کے لیے سرکاری پیسہ، جو اکثریت مسلمانوں کا پیسہ ہے وہ خرچ کیا جا سکتا ہے؟‘
وفاقی وزیر کے مطابق ’یہ ایک شرعی سوال تھا جس کا جواب ضروری تھا اس کو ہم نے اسلامی نظریاتی کونسل کی طرف بھیج دیا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ سرکاری فنڈنگ کے بغیر تعمیر کے حوالے سے جنہوں نے سوال بھیجا ان کو بھی اعتراض نہیں ہے۔

شیئر: