Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’تھیٹر نہ کھلے تو کسمپرسی کی حالت میں مر جائیں گے‘

اداکار نسیم وکی پاکستانی تھیٹر میں کئی برسوں سے کام کر رہے ہیں (فوٹو: فیس بک)
پاکستانی تھیٹر کے معروف فنکار نسیم وکی نے کہا ہے کہ یہ تاثر بالکل غلط ہے کہ فنکار موجودہ تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف نعرے لگا رہے ہیں 'اصل بات یہ ہے کہ ہم اپنے دکھ کا اظہار کر رہے ہیں۔'
 نسیم وکی نے کہا کہ کورونا وائرس کی وبا کی وجہ سے چار پانچ مہینوں سے تھیٹر بند پڑا ہوا ہے، تھیٹر کے فنکار بھوکے مر رہے ہیں۔
اردو نیوز کے ساتھ انٹرویو میں نسیم وکی نے کہا کہ عالیہ چوہدری جیسی فنکارہ جھگیوں میں جا بسی ہے۔
’میں، جس نے اتنا پیسہ سنبھال کر رکھا ہے وہ پریشان ہو گیا ہے تو سوچیں باقیوں کا کیا حال ہوگا؟ بہت سارے لوگ ہماری طرف دیکھ رہے ہیں کہ ہم ان کی مدد کریں لیکن اب کام نہ ہونے کی وجہ سے ہم ان کی مدد نہیں کر پا رہے، پہلے ان کی مدد کر رہے تھے۔ جب بھوک گھر میں آتی ہے۔ لوگ پریشانی میں ایسی بات بھی کر دیتے ہیں کہ جو گناہ کے زمرے میں چلی جاتی ہے ایسی نوبت نہیں آنی چاہیے۔‘
نسیم وکی کہتے ہیں کہ حکومتی عہدیداروں کو چاہیے کہ فنکاروں سے بات کریں اور یہ بتائیں کہ کب تک تھیٹر بند رہے گا یا کب کھلے گا تاکہ ہمیں بھی تسلی ہو کہ ہماری بھی سنی گئی ہے۔
’ایک مہینہ پہلے ہم گورنر پنجاب کے پاس گئے تھے انہوں نے ہماری بات سن کر کہا کہ کل ہی آپ کو اس حوالے سے اچھا رسپانس ملے گا لیکن وہ دن جائے آج کا آئے، ہمیں کچھ نہیں بتایا گیا۔‘

کورونا وائرس کی وجہ سے پاکستان میں تھیٹرز کو بھی بند کیا گیا تھا (فوٹو: فیس بک)

نسیم وکی نے مزید بتایا کہ نواز شریف کے حوالے سے جو بات انہوں نے ایک ٹی وی سے بات کرتے ہوئے کی وہ صرف مثال دینے کے لیے تھی جسے پی ٹی آئی کے مخالفین نے مصالحہ لگا کر چلایا۔
’بات کو بتانے کا مقصد یہ نہیں ہے کہ میں نوازشریف کی تعریفیں کر رہا ہوں میں تو موجودہ حکومت سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ عمران خان صاحب آپ کی کابینہ بھی ہمارے ساتھ مناسب رویہ رکھے، ہماری بات، ہمارا دکھ سنیں۔ فنکار تو سب کا اثاثہ ہوتے ہیں ان کی کسی سیاسی جماعت سے کوئی وابستگی نہیں ہوتی۔‘
نسیم وکی نے کہا کہ میٹرک سے لے کر آج تک انہوں نے اپنی آئیڈل شخصیت عمران خان کو لکھا۔
’ ہم نے کبھی کسی سیاسی جماعت کے حق میں نعرے نہیں لگائے جتنا اس جماعت کے حق میں لگائے، ہم نے کبھی بھی کسی جماعت کے لیے اتنی خواہش اور کوشش نہیں کہ اس کی گورنمنٹ بنے جتنی پی ٹی آئی کے لیے خواہش اور کوشش کی۔‘
نسیم وکی نے بات جاری کرتے ہوئے کہا کہ فنکار سب کے ہوتے ہیں، فنکاروں کی سرحد تو ہو سکتی ہے لیکن فن کی کوئی سرحد نہیں ہوتی اسی طرح سے انسان کا ویزہ تو ہوتا ہے لیکن فن کا کوئی ویزہ نہیں ہوتا۔
’ہم پی ٹی آئی کے خلاف نہیں ہیں نہ ہی ان کے دشمن ہیں، نہ ہی ہم نے ان کے خلاف نعرے بازی کی ہے بس اپنا حق مانگ رہے ہیں۔‘
نسیم وکی کے مطابق پوری دنیا میں جب کبھی معیشت پر برا وقت آتا ہے تو شوبز ہی وہ انڈسٹری ہے جو سب سے زیادہ کماتی ہے وہ اس لیے کہ فنکار لوگوں کو ہنسا کر ڈپریشن سے نکالتے ہیں۔

نسیم وکی کہتے ہیں کہ فن کی کوئی سرحد نہیں ہوتی (فوٹو: فیس بک)

انہوں نے کہا کہ تقریباً پانچ مہینوں سے گھر پر بیٹھا ہوں، کبھی سر میں درد تو کبھی کمر میں درد محسوس ہوتا ہے۔
’ہم فنکار سوچ رہے ہیں کہ کچھ اور کام کر لیں لیکن میں اپنی بات کروں تو میں صرف لکھ اور اداکاری کر سکتا ہوں یا زیادہ سے زیادہ ڈائریکشن دینے کا کام کر سکتا ہوں اس کے علاوہ کوئی اگر کوئی کام کروں تو تھک جاتا ہوں اس لیے میں اور میری فنکار برادری کے لوگ چاہتے ہیں کہ ہم جو کام کر رہے ہیں اسی میں ہمیں مدد کی جائے تاکہ ہم دو وقت کی روزی روٹی کمانے کا سلسلہ جاری رکھ سکیں۔‘
ایک سوال کے جواب میں نسیم وکی نے کہا کہ میں اس بات سے متفق ہوں کہ تھیٹر پہلے جیسا نہیں رہا لیکن میرا سوال یہ ہے کہ پاکستان کا کون سا ایسا شعبہ ہے کہ جو پہلے جیسا ہو؟
ان کا کہنا تھا کہ ڈراموں کی کہانیاں ہی دیکھ لیں لڑکی پر سسر، بہنوئی اور دیور سب آنکھ رکھے ہوئے ہیں کیا ان کہانیوں کو ہم فیملی کے ساتھی بیٹھ کر دیکھ سکتے ہیں؟ تو پھر صرف تھیٹر ہی تنقید کی زد میں کیوں؟ تھیٹر تو کونے میں پڑا ہوا ہے جبکہ ٹی وی تو موبائل پر بھی دیکھا جا سکتا ہے بلکہ ہر چیز موبائل پر دیکھی جا سکتی ہے تو پھر تھیٹر کی ہی چار پانچ عورتوں پر تنقید کرنا کہاں کا انصاف ہے؟ یہ اپنی فیملیوں کو سپورٹ کر رہی ہیں کوئی کینسر میں مبتلا باپ یا ماں کا علاج کروا رہی ہے۔
نسیم وکی سمجھتے ہیں کہ ہمارے ملک میں  فنکار کو برا کہا جاتا ہے جبکہ انڈیا میں فنکاروں کو بہت عزت دی جاتی ہے ہمارے ہاں ایسا نہیں ہے۔
’میں چونکہ بھارت جا کر بھی کام کرتا رہا ہوں ایک بار اپنی فیملی کو کپل کے پروگرام میں لے گیا اس وقت میری بیٹی کی عمر ڈیڑھ یا دو سال تھی۔ کپل کو پتہ لگا تو اس نے اسے سٹیج پر بلوا لیا۔ اگلے دن ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی اب اس ڈیڑھ دو سال کی بچی کے لیے لوگوں نے کیا کیا کمنٹس دیے کہ پڑھ کر مر جانے کو دل کررہا تھا کہ اتنی سی بچی کو بھی نہیں چھوڑا گیا۔ یہ تو حال ہے اتنی سی تو فنکار اور ان کے بچوں کی عزت ہے۔‘

نسیم وکی نے انڈیا میں بھی اپنے کا فن کا مظاہرہ کیا ہے (فوٹو: ٹوئٹر)

نسیم وکی نے کپل شرما شو کے رائٹر کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے ایک چائے والے آئیڈیا کی حوصلہ افزائی کی۔
'میں ایک دن وہاں موجود تھا بھرت کے پاس وہاں کا چائے پلانے والا آیا اس نے کہا کہ میرے پاس ایک آئیڈیا ہے کیوں نہ اس کے پہ کام کیا جائے بھرت نے کہا کہ لکھ کر لاﺅ وہ لکھ کر لایا تو بھرت نے کہا کہ مزید کام کرواس پہ تین بار ایسا ہوا چوتھی بار بھرت نے کہا کہ بہت بہتر کر لیا ہے اب اجازت دو کہ اس میں تھوڑی تبدیلی کر کے کل چلوا دوں، اس طرح اس چائے والے کی حوصلہ افزائی ہوئی اور اس نے مزید لکھنا شروع کر دیا ایسے بنتے ہیں وہاں رائٹرز۔‘
انہوں نے کہا کہ اسی طرح مجھے ایک لڑکا منوج ملا اس نے اور اس کے چند دوستوں نے مجھ سے رابطہ کیا اور کہا کہ ہم آپ کے فین ہیں آپ کو کھانا کھلانا چاہتے ہیں۔
’میں وہاں چلا گیا تو جس کے کے پاس فلیٹ کی چابی تھی وہ تھوڑی دیر کسی سے لفٹ لے کر آیا، اس کے پاس سفر کے لیے پیسے بھی نہیں تھے۔ انہوں نے  پیسے ڈال کر میرے لیے مرغی بنائی، میں نے پوچھا کیا کرتے ہو تو سب نے کہا کہ لکھنا چاہتے ہیں اور منوج نے کہا کہ رائٹر بننے کی تمنا ہے، محنت کر رہا ہوں ایک دن رائٹر بنوں گا۔ میں چھ ماہ کے بعد وہاں دوبارہ گیا تو لڑکا رائٹر بن چکا تھا اور اس سے میری ملاقات ہوئی تو اس نے کہا کہ میں نے گاڑی لی ہے فیتہ آپ سے کٹوانا چاہتا ہوں میں فیتہ کاٹنے گیا تو دیکھا مرسڈیز کھڑی ہے دیکھ کر خوشی ہوئی اور سوچا کہ میں وہیں کھڑا ہوں لیکن یہ لڑکا کتنا آگے چلا گیا ہے۔ واقعہ بتانے کا مقصد یہ کہ وہاں کام کرنے والوں کو عزت دی جاتی ہے۔‘


نسیم وکی کہتے ہیں کہ فنکار لوگوں کو ڈپریشن سے نکالتے ہیں (فوٹو: فیس بک)

انٹرویو کے اختتام پر نسیم وکی نے ایک بار پھر کہا کہ 'ہم اپنے حق کی بات کر رہے ہیں، غصہ کیے بغیر ہماری بات سنی جائے، حکومت اگر ہماری بات سنے گی تو ٹھیک ہے ورنہ ہم سے پہلے بھی کئی فنکار کسمپرسی کی حالت میں مر گئے ہم بھی مر جائیں گے۔'

شیئر:

متعلقہ خبریں