Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

وزیر اعظم بننے کا نسخہ

راہل گاندھی کانگریس کے صدر رہ چکے ہیں (فوٹو: اروند جین)
اگر آپ وزیراعظم بننا چاہتے ہوں تو اس کا ایک بہت آسان طریقہ ہے، بس وہ سب مت کیجیے جو کانگریس پارٹی کے سابق صدر راہل گاندھی کرتے ہیں۔
راہل گاندھی ابھی جوان ہیں، انڈیا کی سیاست میں 50 کی عمر سے ہی جوانی شروع ہوتی ہے، اور چونکہ ختم کبھی نہیں ہوتی اس لیے ہو بھی سکتا ہے کہ کبھی پی ایم کی کرسی تک پہنچ جائیں، لیکن فی الحال اس کا امکان بس اتنا ہی ہے جتنا عام طور پر ٹکٹ خریدے بغیر لاٹری جیتنے کا ہوتا ہے۔
آپ سوچیں گے کہ اگر باپ، دادی اور نانا وزیراعظم رہے ہوں تو ٹکٹ خریدنے کی ضرورت کہاں باقی رہ جاتی ہے، ہر الیکشن کے بعد پہلے وزیراعظم کی کرسی انہیں آفر کی جانی چاہیے اور ان کی دلچسپی نہ ہو تو اس پارٹی کے رہنما کو دی جانی چاہیے جس نے الیکشن جیتا ہو۔
مزید پڑھیں

 

آپ کو شاید لگے کہ راہل گاندھی کے بارے میں راقم کی رائے اچھی نہیں ہے، لیکن کوئی رائے قائم کرنے میں جلد بازی مت کیجیےگا، ہم نے بھی انہیں فیل کرنے کا فیصلہ بہت مرتبہ امتحان لیے بغیر ہی پاس کرنے کے بعد کیا ہے۔
امتحان نہ لینے کا فیصلہ آخرکار اس لیے کیا تھا کہ راہل گاندھی کے لیے اگر آپ کیمسٹری کا پیپر سیٹ کریں تو وہ جواب فلسفے کے دیتے ہیں اور خود امتحان لینے والا چکرا جاتا ہے۔ آج کل پھر یہی ہو رہا ہے۔ لیکن پہلے تھوڑا بیک گراؤنڈ۔
سیاست میں راہل گاندھی کا ٹریک ریکارڈ اتنا خراب نہیں ہے جتنا لوگ سمجھتے ہیں۔ خاص طور پر یہ دیکھتے ہوئے کہ یہ ان کا فل ٹائم پیشہ نہیں ہے، بس شوقیہ یا فری لانس ہی سمجھ لیجیے۔ الیکشن سے دو چار ہفتے پہلے وہ سرگرم ہوتے ہیں اور الیکشن کے بعد غائب ہو جاتے ہیں، جیسے پارٹی نے انہیں شارٹ ٹرم کانٹریکٹ ہی دیا ہو۔
لیکن اس کے باوجود، ان کی قیادت میں کانگریس نے گجرات کے اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کے پسینے چھڑائے، اور کرناٹک، مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ اور راجستھان میں حکومت بنائی۔ یہ سبھی بڑی ریاستیں ہیں۔
لیکن اس کے باوجود اب کرناٹک اور مدھیہ پردیش میں بی جے پی کی حکومت ہے اور راجستھان میں کانگریس کے دو قد آور رہنما چاک و گریباں ہیں، بس کسی طرح وہاں فی الحال حکومت بچی ہوئی ہے، لیکن کب تک، کہنا مشکل ہے۔

راہل کے قریبی ساتھی اور معتمد سچن پائلٹ نے بغاوت کا پرچم بلند کر رکھا ہے (فوٹو: پی ٹی آئی)

مدھیہ پردیش میں راہل گاندی کے سب سے قریبی دوست جیوترا دتیے سندھیا نے بغاوت کی اور بی جے پی سے ہاتھ ملا لیا، راجستھان میں بھی ان کے دوسرے قریبی ساتھی اور معتمد سچن پائلٹ نے بغاوت کا پرچم بلند کر رکھا ہے اور ان کا پارٹی سے جانا تقریباً طے ہے۔ بی جے پی والے پھولوں کے ہار لیے ان کا انتظار بھی کر رہے ہیں اور شاید پشت پناہی بھی، کم سے کم کانگریس کا تو یہ ہی الزام ہے۔
اور راہل گاندھی کیا کر رہے ہیں؟ پیپر کیمسٹری کا ہے جواب فلسفے کے لکھ رہے ہیں۔ کوئی دوسرا لیڈر ہوتا، اس کی کوشش یہ ہوتی کہ کسی بھی قیمت پر حکومت بچاؤ خاص طور پر جب بغاوت کرنے والے آپ کے اپنے دوست ہوں، جنہیں آپ کی ’کچن کیبینیٹ‘ کا حصہ سمجھا جاتا ہو۔
لیکن راہل گاندھی ان سب چیزوں سے اوپر اٹھ چکے ہیں۔ سندھیا گئے اور انہیں جانے دیا گیا، پائلٹ جا رہے ہیں اور انہیں جانے دیا جا رہا ہے حالانکہ سیاسی مبصرین کا ایک بڑا طبقہ یہ مانتا ہے کہ اگر نہرو گاندھی فیملی کے علاوہ کسی کو پارٹی کی باگ ڈور دینی ہو تو سچن پائلٹ اچھے امیدوار ثابت ہوسکتے ہیں۔
لیکن جانے والوں کو کون روک سکا ہے، راہل گاندھی کی شاید یہ ہی فلاسفی ہے۔ اس لیے وہ کس کام میں مشغول ہیں؟ وہ اقتصادی اور سفارتی ماہرین سے انٹرویو کر رہے ہیں اور ملک کو دریپش مسائل کے بارے میں ویڈیو پیغامات سوشل میڈیا پر جاری کر رہے ہیں۔
اور صحافی پوچھ رہے ہیں کہ بھائی ہمارے پیٹ پر کیوں لات مار رہے ہیں، یہ انٹرویو کا کام ہم پر چھوڑ دیجیے آپ اپنی حکومتیں بچائیے۔ جو لوگ راہل کو جانتے ہیں وہ آپ کو بتائیں گے کہ وہ ذہین بھی ہیں اور کافی سمجھداری سے بات کرتے ہیں۔ وہ اب بھی سیکولرز کی قسم کھاتے ہیں اور چین کے ساتھ انڈیا کے سرحدی تنازع پر مودی حکومت کو آڑے ہاتھوں لے رہے ہیں۔ لیکن پھر ایک دن اچانک سیاسی منظرنامے سے کئی ہفتوں کے لیے غائب ہو جائیں گے۔

’نریندر مودی جن باتوں کا جواب نہیں دینا چاہتے نہیں دیتے‘ (فوٹو: روئٹرز)

راہل، یہ سوشل میڈیا کا زمانہ ہے، آپ اس کا جتنا بھرپور استعمال کریں گے اتنا فائدہ ہوگا لیکن یہ انٹرویوز کی حکمت عملی زیادہ سمارٹ نہیں ہے۔ ایک دو تک تو ٹھیک تھا لیکن سوشل میڈیا پر ایک گھنٹےکے انٹرویو کون دیکھتا ہے؟ یہاں تو ’شارٹ بائٹ‘ چلتی ہیں، ایک چبھتا ہوا کمینٹ دیا اور نکل لیے، یقین نہ ہو تو وزیراعظم نریندر مودی کی کوچنگ کلاسز جوائن کر لیجیے، وہ سوشل میڈیا کا بہترین استعمال کرتے ہیں۔
وزیراعظم سے آپ اور بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ وہ جن باتوں کا جواب نہیں دینا چاہتے نہیں دیتے۔ ان کی بی اے اور ایم کی ڈگریوں پر کب سے سوال اٹھائے جا رہے ہیں، بہت سے لوگ مانتے ہیں کہ ان کی ڈگریاں فرضی ہیں لیکن وزیراعظم بننے کے لیے بی اے، ایم اے کی نہیں پارلیمان میں ایم پیز کی ضرورت ہوتی ہے، اس لیے نریندر مودی صرف الیکشن جیتنے پر فوکس کرتے ہیں، باقی جسے جو سوچنا ہو سوچتا رہے۔
اور جب ان کی پارٹی کہیں الیکشن ہار جاتی ہے تو بی جے پی کے لیڈر کانگریس کے ایم ایل اے توڑنے میں ذرا نہیں ہچکچاتے۔ اور راہل دیکھتے رہتے ہیں اور اپنے اس عزم کو اور مضبوط کرتے ہیں کہ جواب میں وہ دو تین نوبیل انعام یافتہ ماہرین اقتصادیات سے انٹرویو کریں گے، لوگوں کو معلوم ہوگا کہ ملک کی اقتصادی حالت کتنی خراب ہے، لوگ بی جے پی کے خلاف ووٹ کریں گے اور کانگریس کی حکومت بن جائے گی۔
لیکن بھائی حکومت تو آپ نے کرناٹک اور مدھیہ پردیش میں بھی بنائی تھی۔ سیاست کا بنیادی آئیڈیا صرف حکومت قائم کرنا اور چلے جانا نہیں ہے، حکومت چلانی بھی پڑتی ہے۔
اور اس کے لیے ضروری ہے کہ جب آپ کی پارٹی کے سیاسی رہنماؤں میں اختلافات پیدا ہو جائیں تو انہیں بر وقت نمٹانے کی کوشش کریں، یہ نہ سوچیں کہ حکومت بھلے ہی بی جے پی کی بن جائے لیکن لوگ تو یہ یاد رکھیں گے کہ بی جے پی والے کانگریس کی مدد کے بغیر حکومت نہیں بنا پاتے، اور ویسے بھی کانگریس پارٹی سب کی مدد کرنے میں یقین رکھتی ہے۔

راہل گاندھی کی بہن پرینکا گاندھی بھی سیاست میں سرگرم ہیں (فوٹو: روئٹرز)

راہل، اگر آپ واقعی وزیر اعظم بننا چاہتے ہیں تو فل ٹائم سیاست کرنی ہوگی۔ یا تو خود پارٹی کے صدر بن جائیے یا کسی اور کو بننے دیجیے۔ جس تیزی سے کانگریس میں انتشار پیدا ہو رہا ہے ایک دن صبح اٹھ کر آپ خود ڈھونڈتے رہ جائیں گے کہ پارٹی کہاں گئی۔
جب نوجوان رہنما وزیراعلی بننے کا خواب دیکھیں تو پارٹی کے لیے یہ بری نہیں اچھی خبر ہے کہ وہ سیاست میں آگے بڑھنا چاہتے ہیں، ان کی آرزؤوں کو بغاوت مت سمجھیے بلکہ ایک ایسا نظام قائم کیجیے کہ انہیں یہ لگے کہ وہ پارٹی میں رہتے ہوئے بھی اپنا گول حاصل کر سکتے ہیں۔
 آپ اگر نگاہ دوڑائیں گے تو آپ کو یہ دیکھ کر حیرت ہوگی کہ مغربی بنگال ہو یا آندھر پردیش، کئی ریاستوں میں ایسے مقامی لیڈر حکومت کر رہے ہیں جو پہلے کانگریس میں ہوا کرتے تھے لیکن جب وہ ناراض یا مایوس ہوکر جانے لگے تو انہیں روکنے کی کوشش نہیں کی گئی۔
آپ کو لاٹری جیتنی ہے تو ٹکٹ تو خریدنا ہی پڑے گا۔ ورنہ وہ کارٹون تو آپ نے دیکھ ہی لیا ہوگا جس میں آپ، آپ کی بہن پرینکا اور والدہ سونیا گاندھی آپس میں گفت شنید کر رہے ہیں اور آخرکار یہ عزم کرتے ہیں کہ باقی کوئی رہے یا نہ رہے، کم سے کم ہم تینوں تو کبھی پارٹی نہیں چھوڑیں گے۔

شیئر:

متعلقہ خبریں