Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

نیوی سیلنگ کلب کو سیل کرنے کا حکم

سی ڈی اے کا کہنا ہے کہ سیلنگ کلب کا الاٹمنٹ لیٹر ہے نہ اس کی منظوری ہوئی ہے (فوٹو: ٹوئٹر)
اسلام آباد ہائی کورٹ نے راول جھیل کے کنارے پاکستان نیوی سیلنگ کلب کو فوری طور پر سیل کرنے کا حکم دے دیا ہے۔
جمعرات کے روز اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس، جسٹس اطہر من اللہ نے راول جھیل کے کنارے پاکستان نیوی کے سیلنگ کلب کی مبینہ طور پر غیر قانونی تعمیرات کے خلاف درخواست پر سماعت کی۔ 
 کیپٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) نے عدالت میں جواب جمع کروایا اور کہا کہ وزیر اعظم پاکستان نے راول جھیل کے قریب تعمیرات کی اجازت دی۔ 
عدالت نے استفسار کیا کہ سی ڈی اے کی جانب سے زمین کا الاٹمنٹ لیٹر کہاں ہے؟ 
 
سی ڈی اے بورڈ ممبر نے عدالت کو بتایا کہ الاٹمنٹ لیٹر موجود نہیں ہے اور نہ ہی اس کی منظوری دی گئی ہے۔
اس پر عدالت نے سی ڈی اے کے نمائندے سے دریافت کیا کہ ادارے نے اس پر کیا کارروائی کی؟
سی ڈی اے بورڈ ممبر بولے ہم نے نوٹسز جاری کر دیے ہیں جس پر عدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کیا مطلب ہے نوٹسز دے دیے ہیں، غریب آدمی کے ساتھ سی ڈی اے کیا کرتا ہے یہ دوہرا معیار کیوں رکھا جا رہا ہے۔ جائیں اور جا کر غیر قانونی عمارت کو گرائیں۔ 
عدالت نے سیلنگ کلب فوری طور پر سیل کرنے کے احکامات جاری کر دیے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ چیئرمین سی ڈی اے اور سی ڈی اے بورڈ ممبران حلف نامے جمع کرائیں، کیوں نہ مبینہ غفلت کی وجہ سے سی ڈی اے کے خلاف قانونی کارروائی شروع کی جائے۔
عدالت نے استفسار کیا کہ پاکستان نیوی کس اتھارٹی کے تحت کمرشل پروجیکٹ چلا رہی ہے، یہ قبائلی علاقہ نہیں ملک کا دارالحکومت ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ نیوی کس اتھارٹی کے تحت کمرشل پروجیکٹ چلا رہی ہے (فوٹو: توئٹر)

جسٹس اطہر من اللہ نے سی ڈی اے بورڈ ممبر سے نیوی سیلنگ کلب کی عمارت کے قانونی یا غیر قانونی ہونے پر استفسار کیا تو سی ڈی اے کے نمائندے نے بتایا کہ یہ غیر منظور شدہ ہے۔ 
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ غیر منظور شدہ کیا ہوتا ہے؟ 'اس کا مطلب ہے یہ غیر قانونی ہے، سی ڈی بورڈ ممبر بتانے میں کترا رہے ہیں کہ کمرشل بلڈنگ پاکستان نیوی کی ہے اور غیر قانونی ہے۔'
 سیکرٹری کابینہ ڈویژن جا کر سیلنگ کلب سیل کریں اور آئندہ سماعت تک سیل رہے۔ اگر سیلنگ کلب سیل نہ ہوا تو سیکرٹری آئندہ عدالت میں پیش ہو کر جواب جمع کروائیں۔
عدالت نے سی ڈی اے بورڈ ممبر سے کہا کہ سیلنگ کلب کے آس پاس کس کا قبضہ ہے؟ عوام کو وہاں جانے کی اجازت کیوں نہیں دی جاتی؟ 
پاکستان نیوی کے نمائندے نے عدالت سے جواب جمع کروانے کے لیے وقت دینے کی استدعا کی جس پر جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ 'کس بات کا وقت؟ اس عدالت سمیت کوئی قانون سے بالاتر نہیں ہے۔

عدالت نے کہا کہ کیوں نہ مبینہ غفلت پر سی ڈی اے خلاف کارروائی کی جائے (فوٹو: ہائی کورٹ ویب)

'ہم آپ کی عزت کرتے ہیں، آپ کے شہیدوں کے لیے ہم ہر قسم کی قربانی دینے کے لیے تیار ہیں لیکن اگر آپ غیر قانونی کام کریں گے تو آپ ان شہیدوں کے ساتھ بھی زیادتی کریں گے۔' 
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت سے معاونت کرنے کی اجازت مانگی جس پر عدالت نے انہیں روکتے ہوئے کہا کہ آپ معاونت نہیں کر سکتے، پہلے جائیں اور سیلنگ کلب سیل کریں اور یہ معاملہ وفاقی کابینہ کے سامنے رکھیں۔ نیوی نے کس قانون اور اتھارٹی کے تحت کمرشل پروجیکٹس شروع کر دیے ہیں۔ 
'عدالت نے کہا کہ سی ڈی اے کا جواب چونکا دینا والا ہے۔ کیوں نہ مبینہ غفلت پر سی ڈی اے خلاف قانونی کارروائی کی جائے۔'

شیئر: