Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کورونا وائرس سے بچاؤ کا 'انڈین پاپڑ'

انڈین وزیر کو گذشتہ دنوں 'بھابھی جی' نامی پاپڑ کی تشہیر کرتے دیکھا گیا (فوٹو: اے ایف پی)
کورونا کے متاثرین اور شمال مشرقی ریاستوں میں سیلاب کی تباہ کاریوں کی خبریں گذشتہ ہفتے سرخیوں میں رہیں لیکن انڈیا سے کچھ ایسی خبریں بھی ہیں جو دلچسپ ہیں۔ آئیے ایسی ہی چند خبروں پر نظریں ڈالتے ہیں۔
انڈیا میں روزانہ کورونا کے ریکارڈ کیسز سامنے آ رہے ہیں اور ہلاکتوں میں بھی مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ انڈیا کورونا کے متاثرین کی تعداد میں تیسرے اور اموات کے حوالے سے دنیا میں چھٹے نمبر پر ہے۔
ایسے میں انڈیا کے ایک وزیر کو ایک پاپڑ کی تشہیر کرتے دیکھا گیا جس کا دعویٰ ہے کہ اس میں ایسے سارے عناصر ہیں جو کورونا وائرس کے پھیلاؤ سے لڑنے کے لیے اینٹی باڈی تیار کرنے میں معاون ہیں یا یوں کہیے کہ قوت مدافعت پیدا کرنے کی صلاحیت کے حامل ہیں۔

 

مرکزی نائب وزیر برائے آبی وسائل ارجن رام میگھاول ریاست راجستھان کے بیکانیر سے بی جے پی کے رکن پارلیمان ہیں اور انھیں گذشتہ دنوں 'بھابھی جی' نامی پاپڑ کی تشہیر کرتے دیکھا گیا۔
سوشل میڈیا پر انھیں تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ لوگ بڑی تعداد میں یہ کہہ رہے ہیں کہ بابا رام دیو کے بعد اب وزرا بھی کورونا کا فائدہ اٹھانے کے لیے آگے آ گئے ہیں۔
معروف وکیل پرشانت بھوشن نے لکھا کہ 'کووڈ وبا کے دوران مرکزی وزیر ارجن رام میگھاول نے 'پاپڑ' کا ایک برانڈ لانچ کیا ہے اور یہ دعوی کیا جا رہا ہے کہ اس میں کورونا وائرس سے لڑنے کی طاقت پیدا کرنے والے سارے عناصر ہیں۔ وزرا، رام دیو سب کورونا کے بوگس علاج سے منافع کمانے کی کوششوں میں ہیں۔'
بہت سے لوگوں نے کہا کہ جو خریدنا چاہتا ہے اسے خریدنے دیں، کوئی زبردستی تو نہیں کر رہا ہے تو کسی نے طنز کیا کہ 'اسے کہتے ہیں مصیبت کو فائدے میں بدلنا۔'
اس کے متعلق مذاقیہ کمنٹس بھی آ رہے ہیں۔ ایک صارف نے لکھا کہ 'اب جبکہ مدھیہ پردیش کے وزیراعلیٰ کو کورونا پازیٹو آيا ہے تو انھیں یہ پاپڑ لینا چاہیے' تو ایک شخص نے لکھا کہ 'اب امریکی صدر بھی اس کا آرڈر دینے والے ہیں۔'
جب بات کورونا کی چل نکلی ہے تو گذشتہ دنوں ایک بوڑھی خاتون کی ایک ویڈیو وائرل ہوئی جو جنگی مہارت کی لاٹھی چلانے کا ہنر دکھا کر پیسے کمانے پر مجبور ہو گئی ہیں۔
خبررساں ادارے اے این آئی کے مطابق 85 سالہ شانتی بائی پوار پونے کی سڑکوں پر انتہائی مہارت کے ساتھ 'لاٹھی کاٹھی' کا اپنا ہنر دکھا رہی ہیں۔
اپنے پوتے پوتیوں کو پالنے کے لیے انھیں اس عمر میں سڑکوں پر یہ تماشہ کرنا پڑ رہا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ انھوں نے آٹھ سال کی عمر میں یہ ہنر سیکھا تھا۔
سرخ ساڑھی میں مبلوس شانتی بائی نے کہا کہ 'میں آٹھ سال کی عمر سے یہ کام کر رہی ہوں۔ میں نے اپنے والد سے یہ ہنر سیکھا تھا۔ میں نے اسے کبھی نہیں چھوڑا۔ یہ میری زندگی کا حصہ ہے۔ کووڈ میں لوگ عام طور پر گھروں میں ہوتے ہیں تو میں انھیں برتن بجا کر آگاہ کرتی ہوں کہ اب میری پرفارمنس شروع ہو رہی ہے۔'
انھوں نے بتایا کہ 'لوگ دیکھ کر دنگ رہ جاتے ہیں اور کہتے ہیں بہت اچھا دادی۔ مجھے یہ سب اپنے پوتے پوتیوں کے لیے کرنا پڑتا ہے۔'
سینیئر سیٹیزن کو عام طور پر گھروں میں رہنے کے لیے کہا جاتا ہے لیکن شانتی بائی کا کہنا ہے انھیں کورونا سے خوف نہیں۔ وہ دعا کر کے گھر سے نکلتی ہیں اور اب تک محفوظ ہیں۔
ان کے ہنر کو پہلے پہل سوشل میڈیا پر ایشوریہ کالے نامی ایک ڈانسر نے ڈالا تھا اس کے بعد سے لوگ دادی کی امداد کو سامنے آئے ہیں اور انھیں بہت امداد مل رہی ہے۔ ایشوریہ کالے نے کہا کہ 'ایک فن کار ہی دوسرے فنکار کی ضرورت سمجھ سکتا ہے۔'
گذشتہ ہفتے آپ نے پیلے مینڈک کے بارے پڑھا تھا اب سوشل میڈیا پر ایک پیلے کچھوئے کی دھوم ہے۔ جانوروں کی دنیا کتنی رنگ برنگی ہو سکتی ہے یہ اسکا ایک نمونہ ہے۔
محکمۂ جنگلات کے افسر سوشانت نندا نامی صارف نے چار دن قبل ایک پیلے کچھوے کی ویڈیو پوسٹ کرتے ہوئے لکھا کہ مشرقی ساحلی ریاست اڑیسہ کے بالاسور میں ایک نادر کچھوا دیکھا گيا۔
انھوں نے لکھا کہ 'قوی امکان ہے کہ یہ البینو ہے۔ اس طرح کا بالکل مختلف کچھوا چند سال قبل سندھ میں نظر آیا تھا۔'
ان کی اس ویڈیو کو تقریباً 70 ہزار بار دیکھا جا چکا ہے۔ اس کے متلعق ایک صارف نے لکھا کہ چند سال قبل اسے اڑیسہ کے سیکریٹریٹ سے بچایا گيا تھا۔ ایک صارف نے لکھا کہ ان کے پاس اس قسم کو دو البینو ہے۔
ان سب کے درمیان جو سب سے اہم بات ہے وہ فطرت کے تنوع کی ہے جس کے بارے میں لوگ سوشل میڈیا پر زیادہ گفتگو کرتے نظر آئے ہیں۔

شیئر: