Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’اتنے جھوٹ بولے ہیں کہ ان پر کتاب لکھ سکتی ہوں‘

والدین سے اجازت لینے کے لیے اکثر نوجوان جھوٹ کا سہارا لیتے ہیں (تصویر : ان سپلش)
دوستوں کے ساتھ جو وقت گزارا جاتا ہے وہ حسین یاد بن جاتا ہے۔ بچپن میں بنائے گئے دوستوں کے ساتھ تعلق زیادہ گہرا ہوتا ہے اور اس وقت زیادہ تر دوستیاں سکول فیلوز کے ساتھ ہی ہوتی تھیں۔
یہی وجہ ہے کہ سکول سے چھٹی کے بعد بھی ساتھ وقت گزارنے کی خواہش ہوتی تھی مگر 'والدین کی اجازت' ہمیشہ آڑے آ جاتی تھی۔ ایسے میں کسی دوست کے گھر کتاب لینے جانے کے لیے اجازت مل جانے پر بھی اتنی خوشی ہوتی تھی کہ مت پوچھیں۔
ضروری نہیں کہ سب کے ساتھ یہی معاملہ رہا ہو مگر آپ میں سے بہت سے ایسے ہوں گے جنہیں اب بھی اپنے دوستوں سے ملاقات کے لیے والدین کی اجازت درکار ہوتی ہوگی۔
آپ کے اردگرد بھی شاید ہی کوئی ایسا ایک کیس ہو جس نے کالج ،یونیورسٹی کے ٹرپ اور پارٹیز کے لیے والدین سے جھوٹ بول کر اجازت نہ لی ہو گو کہ جھوٹ بولنا بالکل اچھی عادت نہیں مگر ہر خاندان کے اپنے کچھ طور طریقے ہوتے ہیں کسی کے والدین آزاد خیال ہونے کی وجہ سے بچوں پر زیادہ پابندیاں نہیں لگاتے جبکہ کچھ گھروں میں دیر سے گھر آنا آج کے دور میں بھی معیوب سمجھا جاتا ہے۔
ٹوئٹر پر اس حوالے سے بحث میں حصہ لینے والے صارفین  کی طرف سے مختلف قسم کے تجربات جاننے کا موقع ملا۔
اکثر کا کہنا تھا دوستوں سے لیٹ نائٹ ملنے کے لیے اجازت کے مسائل ہوتے ہیں اس مرحلے میں بہت جھوٹ بولنا پڑتے ہیں جبکہ کچھ کا کہنا ہے میرے دوستوں کو بھی مختلف گھروں کے طور طریقے سمجھنے چاہیے اور ایسے لوگوں کا مذاق نہیں اڑانا چاہیے۔
ٹوئٹر صارف بانو کا کہنا تھا کہ ’میں ان لوگوں میں سے ہوں جنہیں کبھی اجازت لینے کا مسئلہ نہیں درپیش آیا مگر جب میری دوستیں بتاتی تھیں کہ وہ اجازت لینے سے پہلے کتنا ڈری ہوئی ہوتی تھیں تب مجھے احساس ہوا کہ خواتین کا ایسے  باہر نکلنا اب بھی بہت مشکل ہے۔‘ 

بانو نے مزید کہا کہ ’عمر کے اس حصے میں میں صرف اپنی والدہ کو آگاہ کر دیتی ہوں جبکہ میرے کئی دوستوں  کے لیے یہ اتنا آسان نہیں ہے اکثر کو ان کے والدین پک اینڈ ڈراپ دیتے ہیں اور بہت سے ایسے بھی ہیں جنھیں کئی مرتبہ معذرت کرنے کے لیے بھی کہا جاتا ہے۔‘

ٹوئٹر ہینڈل ال موسٹ منڈے نے لکھا ’ میں 23 سال کی ہوں اور نوکری بھی کر رہی ہوں مگر میں چھٹی کے دن بھی اپنے دوستوں سے نہیں مل سکتی جب تک میں اچھے خاصے جھوٹ نہ بول لوں  کیونکہ میرا دوستوں سے ملنا ضروری نہیں سمجھا جاتا اور اس کے لیے میں نے جتنے جھوٹ بولے ہیں میں ان پر ایک کتاب لکھ سکتی ہوں۔‘

بیشتر صارفین کا کہنا تھا کہ اب جھوٹ بولنے کی وجہ سے اتنی عادت پڑ گئی ہے یہ خود بخود منہ سے نکل جاتا ہے والدین کو چاہیے کہ بچوں اور بڑے ہونے کے ساتھ بدلتی ہوئی ضروریات کا خیال رکھیں اور انہیں انفرادی طور پر سمجھنے کی کوشش کریں تاکہ ایسے مسائل سے خاطر خواہ بچا جا سکے۔

شیئر: