Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اسلام آباد: شیروں کی اموات، قصوروار کون؟

ڈبلیو ڈبلیو ایف نے اسلام آباد وائلڈ لائف مینیجمنٹ بورڈ میں سالوں سے قائم اپنی رکنیت سے علیحدگی کا اعلان کیا ہے(فوٹو:ٹوئٹر)
اسلام آباد کے چڑیا گھر سے محفوظ جگہ منتقلی کے دوران ایک ہفتے میں شیروں، ایک شتر مرغ اور چند پرندوں کی افسوسناک اموات کی تحقیقات شروع کر دی گئی ہیں۔
حکومتی ادارے ایک دوسرے کو مورود الزام ٹھہرا رہے ہیں جبکہ عالمی ادارے ڈبلیو ڈبلیو ایف نے بھی اس واقعے کی مذمت کرتے ہوئے ذمہ داران کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔
اس واقعے پر احتجاج کے طور پر ڈبلیو ڈبلیو ایف نے اسلام آباد وائلڈ لائف مینیجمنٹ بورڈ  میں سالوں سے قائم اپنی رکنیت سے علیحدگی کا اعلان کیا ہے۔
اس سلسلے میں اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے اسلام آباد وائلڈ لائف مینیجمنٹ بورڈ کے چیئرمین ڈاکٹر انیس الرحمن نے تصدیق کی کہ اسلام آباد سے لاہور منتقلی کے بعد شیر اور شیرنی کی موت ہو گئی ہے تاہم اس کی وجوہات جاننے کے لیے پوسٹ مارٹم کیا جا رہا ہے۔
اس کے علاوہ انہوں نے ایک شتر مرغ اور چند پرندوں کی بھی اموات کی تصدیق کی تاہم ان کا کہنا تھا کہ اس سلسلے میں تحقیقات جاری ہیں اور جلد ان کے نتائج سے عوام کو آگاہ کر دیا جائےگا۔
انہوں نے بتایا کہ اس وقت بھی وہ چڑیا گھر میں ہی موجود ہیں اور انکوائری جاری ہے۔
دوسری طرف اسلام آباد انتظامیہ کے ایک ترجمان کا کہنا ہے کہ ڈپٹی کمشنر اسلام آباد حمزہ شفقات کی ہدایت پر اس معاملے کی تحقیقات کی جا رہی ہیں اور ذمہ داران کے خلاف ایف آئی آر درج کی جائے گی۔

اسلام آباد وائلڈ لائف مینیجمنٹ بورڈ کے چیئرمین نے ایک شتر مرغ اور چند پرندوں کی بھی اموات کی تصدیق کی (فوٹو:ٹوئٹر) 

یاد رہے کہ عشروں تک سی ڈی اے اور میٹروپولیٹن کارپوریشن اسلام آباد (ایم سی آئی)  کے زیرانتظام رہنے کے بعد چڑیا گھر کو 16 جولائی کو وزارت ماحولیاتی تبدیلی کے زیرانتظام دے دیا گیا تھا اور اس کی نگرانی  اسلام آباد وائلڈ لائف مینیجمنٹ بورڈ کو سونپی گئی تھی۔
اسلام آباد میں بین الاقوامی معیار کی سہولیات کی فراہمی تک اسلام آباد چڑیا گھر سے جانوروں کو مخلتف پرائیویٹ اور سرکاری چڑیا گھروں میں منتقل کیا جا رہا ہے۔
مادہ شیر لاہور منتقلی کے فوری بعد فوت ہوگئی تھی جبکہ شیر کی موت کی جمعرات کو تصدیق ہوئی ہے۔ ڈاکٹر انیس الرحمن کے مطابق چڑیا گھر سے ساڑھے تین سو سے زائد جانوروں کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا جا چکا ہے جبکہ چند جانور اور 36 سالہ کاون ہاتھی ابھی تک چڑیا گھر میں ہی ہیں۔
ان کا دعوی تھا کہ جانوروں کی منتقلی کے دروان قواعد و ضوابط یا ایس وپیز کو ملحوظ خاطر رکھا گیا تھا۔ انہوں نے ان رپورٹس کی تردید کی جن میں کہا گیا تھا کہ مادہ شیر حاملہ تھی۔
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے چڑیا گھر کے سابق ڈائریکٹر بلال خلجی نے کہا وہ چارج چھوڑ چکے ہیں اس لیے وہ اس معاملے پر بات نہیں کر سکتے بلکہ وزارت ماحولیاتی تبدیلی ہی اس پر کوئی تبصرہ کر سکتی ہے۔
وزارت ماحولیاتی تبدیلی کے ترجمان محمد سلیم نے بتایا کہ ان کی وزارت پوری کوشش کر رہی ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم پر مکمل عمل درآمد ہو تاہم ان کا کہنا تھا کہ ایم سی آئی کے پرانے عہدیداران نے وزارت کے حکام سے تعاون نہیں کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ وزارت کے پاس جانوروں کے حوالے سے اتنی مہارت نہیں جتنی ایم سی آئی کے پاس ہے تاہم وزارت کو وہ تعاون نہیں ملا جو درکار تھا جس کے باعث حادثات سامنے آئے۔

اسلام آباد وائلڈ لائف مینیجمنٹ بورڈ کے چیئرمین کا کہنا ہیے کہ تحقیقات جاری ہیں اور جلد ان کے نتائج سے عوام کو آگاہ کر دیا جائےگا (فوٹو:ٹوئٹر)

ایم سی آئی کے ترجمان محسن شیرازی نے عدم تعاون کی تردید کی اور کہا کہ وزارت ماحولیاتی تبدیلی کو اگر کوئی شکایت تھی تو اسے عدالت کو بتانا چاہیے تھا کیونکہ یہ ساری تبدیلی عدالتی حکم پر ہی ہو رہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ایم سی آئی گزشتہ چار سال سے چڑیا گھر کے انتظامات درست طریقے سے چلا رہی تھی آخر اچانک ایسا کیا ہوا کہ گزشتہ چند ماہ میں مسائل سامنے آنا شروع ہو گئے؟
محسن شیرازی نے کہا کہ اگر وزارت کے پاس جانوروں کی منتقلی کے حوالے سے مہارت نہ تھی تو انہیں اس کام کو تھوڑا ملتوی کر دینا چاہیے تھا ناکہ جانوروں کو دھواں اور آگ دکھا کر یا دوسرے غلط  طریقوں سے منتقل کیا جاتا۔ 
وزارت کے حکام اس بات پر بھی تنقید کی زد میں ہیں کہ آخر اتنے گرم موسم میں جانوروں کو منتقل کرنے کی کیا ضرورت تھی خاص طور پر جب زیادہ تر جنگلی جانور اس طرح کے شدید موسم اور منتقلی کا دباؤ برداشت نہیں کر سکتے۔
یاد رہے کہ سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی ویڈیوز میں دیکھا گیا ہے کہ شیر کے پنجرے کے قریب آگ لگا کر اور اس کے پنجرے پر ڈنڈے برسا کر اہلکار شیر کو گاڑی میں لادنے کے لیے تیار کر رہے ہیں تاہم ایم سی آئی ، وزارت یا دیگر حکام نے اس ویڈیو کی تصدیق سے انکار کر دیا۔
دوسری طرف ماحولیاتی تحفظ کے عالمی ادارے  (ڈبلیو ڈبلیو ایف) کے پاکستان میں موجود حکام نے بھی چڑیا گھر میں جانوروں کی اموات پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔

وزارت ماحولیاتی تبدیلی کے ترجمان نے اردو نیوز کو بتایا ہے کہ کاون ہاتھی کو کمبوڈیا منتقل کرنے کے انتظامات مکمل کر لیے گئے ہیں (فوٹو: ٹوئٹر)

اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے فنڈ کے سینئر ڈائریکٹر پروگرامز رب نواز کا کہنا تھا انہیں بھی حال ہی میں جانوروں کے ساتھ کیے جانے والے سلوک کا معلوم ہوا ہے اور سینیئر مینجمنٹ بہت تشویش میں مبتلا ہے۔ ابھی تک جانوروں کی پوسٹمارٹم رپورٹ سامنے نہیں آئی جس سے موت کی وجہ کا تعین کیا جا سکے۔
ان سے پوچھا گیا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان کے نمائندے کو بھی چڑیا گھر کی منتقلی کے عمل کی نگرانی کی ذمہ داری دی تھی تو ان کا کہنا تھا کہ 'اس عمل کی نگرانی اسلام آباد وائلڈ لائف مینیجمنٹ بورڈ کے زمہ تھی اور ان کے ادارے نے صرف ہدایات دی تھیں اور وہ بھی کاون ہاتھی کے حوالے سے۔'
انہوں نے بتایا کہ ڈبلیو ڈبلیو ایف کے چڑیا گھر کے جانوروں کی منتقلی کے ایس او پیز نہیں ہوتے بلکہ جنگلی جانوروں کے حوالے سے ضابطہ کار ہوتے ہیں۔
اپنی ایک پریس ریلیز میں ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان نے شیر کے ساتھ اسلام آباد چڑیا گھر میں ہونے والے سلوک کی مذمت کی اور اس حوالے سے سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی ویڈیو پر شدید تشویش کا اظہار کیا۔
پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ  ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان نے  اسلام آباد وائلڈ لائف مینیجمنٹ بورڈ سے اس معاملے پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے امید ظاہر کی کہ جو جو لوگ اس نازیبا عمل میں ملوث ہیں انہیں کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا۔
 ڈبلیو ڈبلیو ایف نے  اسلام آباد وائلڈ لائف ینیجمنٹ بورڈ  سے علیحدگی کا اعلان کیا ہے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ گو کہ  ڈبلیو ڈبلیو ایف اس بات سے آگاہ ہے کہ جنگلی جانوروں کی منتقلی کے دوران رسک ہوتا ہے تاہم یہ اس بات کا جواز نہیں کہ ان کے ساتھ ایسا سلوک کیا جائے جیسا کہ ویڈیو میں دکھایا گیا ہے۔
 ڈبلیو ڈبلیو ایف  سالہا سال سے پاکستان میں چڑیا گھروں کے لیے قواعد و ضوابط کا مطالبہ کرتا آیا ہے تاکہ اس طرح کے واقعات نہ ہوں اور جانوروں کو اچھے طریقے سے رکھا جا سکے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ ادارے نے اس حوالے سے لاہور اور اسلام آباد ہائی کورٹ سے بھی رجوع کیا ہے اور کاون ہاتھی کی منتقلی کے حکم پر بھی عمل کر رہا ہے۔
دوسری طرف وزارت ماحولیاتی تبدیلی کے ترجمان نے اردو نیوز کو بتایا ہے کہ کاون ہاتھی کو کمبوڈیا منتقل کرنے کے انتظامات مکمل کر لیے گئے ہیں اور اگلے چند ہفتوں میں اسے منتقل کر دیا جائے گا۔

شیئر: