Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

امریکہ کو چینی منصوبوں پر اعتراض کیوں؟

امریکی دفتر خارجہ نے  قومی احتساب بیورو (نیب ) کے کیسز کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان اور چین کے درمیان سی پیک ترقیاتی منصوبہ غیر شفاف ہے اور بین الاقوامی معیار پر پورا نہیں اترتا۔ 
اردو نیوز کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں امریکی دفتر خارجہ کے اردو ترجمان زیڈ ترار نے کہا کہ امریکی ترقیاتی منصوبے زیادہ شفاف ہوتے ہیں اور ایسے ہی منصوبوں کی وجہ سے آج پاکستان میں چار کروڑ سے زیادہ لوگوں تک بجلی پہنچ رہی ہے۔ 
تاہم ان کا کہنا تھا کہ ’بدقسمتی سے سی پیک منصوبہ کئی بین الاقوامی معیاروں پر پورا نہیں اترتا بلکہ خود پاکستان کا قومی احتساب بیورو (نیب) سی پیک کے کئی معاہدوں پر تفتیش کر رہا ہے۔‘

 

لندن میں مقیم امریکی دفتر خارجہ کے ترجمان کا کہنا تھا کہ امریکہ اور پاکستان کے درمیان تعاون کی گذشتہ 70 سال کی تاریخ ’ہمیں دکھاتی ہے کہ امریکہ ہر اس منصوبے کی حمایت کرتا ہے جس سے علاقے کے لوگوں کی زندگیوں میں کوئی بہتری آئے اور ہم اس بات پر زور دیتے ہیں کہ ہر معاشی منصوبہ شفافیت اور بین الاقوامی معیار پر مبنی ہو اور بین الاقوامی ماحولیاتی اور لیبر معیار پر پورا اترے۔‘
زیڈ ترار امریکی دفتر خارجہ کے اردو اور ہندی زبان کے ترجمان ہیں اور لندن سے قبل واشنگٹن میں امریکی دفتر خارجہ کے بیورو آف انٹرنیشنل آرگنائزیشن افیئرز میں تعینات رہے ہیں۔ انہوں نے امریکی فارن سروس 2010 میں جوائن کی اور وہ پاکستان، یو اے ای اور اٹلی میں خدمات سرانجام دے چکے ہیں۔ 
امریکی ویزا پابندیوں کے پاکستانیوں پر اثرات کے حوالے سے ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ اس سال 22 جون کو صدر ٹرمپ نے اپریل کے ایک آرڈر میں توسیع کی تھی اور اس آرڈر کے تحت بعض ایچ اور جے کیٹگری کے نئے ویزوں کی منظوری کو اس سال کے آخر تک روکا گیا ہے ۔’ہم صرف نئے ویزوں کے بارے میں بات کر رہے ہیں جن کے پاس پہلے سے ویزہ ہے ان پر اس آرڈر سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔‘

صدر ٹرمپ نے افغانستان میں امن کی کوششوں میں پاکستان کے کردار کی تعریف کی تھی (فوٹو: اے ایف پی)

امریکہ پاکستان تعلقات کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ کچھ عرصے پہلے جب وزیراعظم عمران خان کی صدر ٹرمپ سے واشنگٹن میں ملاقات ہوئی تھی تو صدر ٹرمپ نے افغانستان میں امن کی کوششوں میں پاکستان کے کردار کی تعریف کی تھی۔
جہاں تک امریکہ اور پاکستان کے درمیان تعلقات کی بات ہے تو ’میں سمجھتا ہوں کہ ہماری دوستی باہمی احترام کے ساتھ ساتھ دونوں ملکوں کے درمیان ایک تزویراتی اتحاد بھی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکہ برسوں سے پاکستان کو عالمی امداد دینے والے ملکوں میں سرفہرست ہے۔ اس کے علاوہ امریکی حکومت سب سے بڑا تعلیمی پروگرام پاکستان میں چلاتی ہے اور اب تک کل 30 ہزار سے زیادہ طالب علموں نے اس پروگرام سے فائدہ اٹھایا ہے۔‘
ان سے پوچھا گیا کہ اردو زبان میں سفارت کاری باہمی تعلقات پر کس حد تک اثرانداز ہوتی ہے تو ان کا کہنا تھا کہ امریکی دفتر خارجہ میں انگلش زبان کی ترجمان کے علاوہ دنیا بھر کے میڈیا سے رابطے کے لیے کئی زبانوں کے ترجمان کام کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر روسی، عربی، ہسپانوی، فرانسیسی اور پرتگالی زبان تک کے ترجمان بھی ہیں اور ان تمام کا مقصد امریکی خارجہ پالیسی کو دنیا کے سامنے درست اور واضح طور پر پیش کرنا ہے۔ 

’پاکستان کا قومی احتساب بیورو (نیب) سی پیک کے کئی معاہدوں پر تفتیش کر رہا ہے‘ (فوٹو: اے ایف پی)

’دیکھیے اس میں کوئی شک نہیں کہ زبان رکاوٹوں کو ختم کرتی ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ پالیسی کو درست طریقے سے پیش کرنا ہماری ذمہ داری ہے کسی اور کی نہیں۔ امریکی دفتر خارجہ کا اردو ترجمان رکھنے کا فیصلہ ہماری خارجہ پالیسی میں جنوبی ایشیا کی اہمیت ظاہر کرتا ہے اور یہاں میں آپ کو بتاتا چلوں کہ امریکی دفتر خارجہ میں اردو بولنے والے تمام سفارت کار اردو کو ایک خوبصورت اور شاعرانہ زبان کی حثیت سے دیکھتے ہیں۔‘
 

شیئر: