Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بیروت میں خوف کا منظر، ڈاکٹروں کی زبانی

دھماکے کے زخمیوں میں زیادہ تر بچے شامل تھے (فائل فوٹو: روئٹرز)
لبنان کے دارالحکومت بیروت میں ہونے والے دھماکوں کے چند گھنٹوں کے اندر اندر ہی شہر کے کلیمونسو میڈیکل سینٹر میں زخمی افراد کا تانتا بندھ گیا۔  
ان میں سے کچھ اپنے گھروں میں کانچ ٹوٹنے اور کچھ چیزیں گرنے سے زخمی ہوئے، تو کئی افراد لفٹ یا سیڑھیوں سے اوپر جاتے ہوئے بری طرح زخمی ہوگئے۔
بہت سے ایسے بھی تھے جو سڑک پر ملبہ گرنے سے زخمی ہوئے۔
بدھ کی رات تک زخمیوں کی تعداد پانچ ہزار تک پہنچ گئی جبکہ ایک سو 35 افراد ہلاک ہوئے۔
اس رات کا ذکر کرتے ہوئے جب ڈاکٹروں اور نرسوں کو فوری ڈیوٹی پر آنے کا کہا گیا کلیمونسو میڈیکل سینٹر کے کارڈیالوجسٹ ڈاکٹر ولید عالمی نے عرب نیوز کو بتایا کہ 'ہر جگہ خون تھا۔'
ان کا کہنا تھا کہ مریضوں کی بڑی تعداد، جن میں زیادہ تر بچے شامل تھے، کو آنکھوں پر زخم آئے اور کانچ کے ٹوٹے ٹکڑوں کی وجہ سے کئی کی بینائی بھی چلی گئی۔
ڈاکٹر ولید عالمی کا کہنا تھا کہ 'میں 58 سال کا ہوں اور خانہ جنگی کا دور دیکھ چکا ہوں اور 2006 میں قبضے کے وقت مریضوں کا علاج بھی کر چکا ہوں۔ لیکن ایسا (منظر) پہلے کبھی نہیں دیکھا۔'
ان کا کہنا تھا کہ اتنی بڑی سطح کا دھماکہ پہلے کبھی نہیں ہوا۔
انہوں نے مزید بتایا کہ اس وقت ہسپتال میں موجود ڈاکٹروں نے معاملات کو بخوبی سنبھالا، جبکہ اس طرح کا واقعہ 2006 سے اب تک نہیں ہوا۔ 'ہم نے بہت کم وقت میں بہت سارے کیسز دیکھے۔'
لبنان کا محمکہ صحت پہلے ہی سے مشکلات کا شکار تھا، جس کی وجوہات میں معاشی بحران، بجلی کی قلت اور کورونا وائرس کی دوسری لہر شامل تھیں۔

دھماکوں کی وجہ سے بیروت کے کچھ ہسپتالوں میں بجلی منقطع ہوگئی تھی (فوٹو: روئٹرز)

جولائی 30 کو لبنان میں دو ہفتے کا لاک ڈاؤن کیا گیا تھا جب وزیر صحت نے تنبیہ کی تھی کہ وبا خطرناک موڑ پر ہے لیکن منگل کو بیروت کے ہسپتالوں میں ایک بالکل ہی غیر متوقع صورت حال پیش آگئی۔
فوری ہسپتل پہینچے والے ڈاکٹروں میں ڈاکٹر رمضی عالمی بھی شامل ہیں جو امریکن یونیورسٹی آف بیروت میڈیکل سینٹر میں سرجن ہیں۔
انہوں نے عرب نیوز کو بتایا کہ 'بیروت کے دیگر ہسپتالوں کی طرح ہم بھی گذشتہ رات بہت مصروف تھے۔ ہمیں بہت سے لوگوں کو واپس بھیجنا بڑا جو کہ ہمارے عملے کے لیے سب سے بڑا چیلنج تھا۔ ہم نے راستے کھلے رکھے تھے تاکہ زیادہ زخمی افراد کو اندر لاسکیں۔'
ان کا مزید کہنا تھا کہ انہیں نہیں معلوم وہ اس رات کو کیسے بیان کریں جب وہ لوگ زمین پر اور ہسپتال کے ہر کونے میں مریضوں کا علاج کر رہے تھے۔ 'اس دوران بجلی بھی چلی گئی تھی تو ہم مرضوں کا اندھیرے میں علاج کر رہے تھے۔۔۔'

دھماکوں کی شدت سے کئی لوگ دیواروں سے ٹکرائے تھے (فوٹو: اے ایف پی)

زیادہ تر کیسز سر میں چوٹ کے تھے جس میں دماغی صدمہ شامل تھا۔
'دھماکے کی شدت کی وجہ سے لوگ مختلف سمتوں میں جا کر گرے تھے یا دیوار سے ٹکرائے تھے۔ بہت سے لوگوں کو کانچ کے ٹوٹنے سے زخم آئے۔'
میڈیکل سینٹر میں کُل ملا کر ایک رات میں 55 بڑے کیسز لائے گئے۔ وہ افرد جن کو کم چوٹ آئی تھی انہیں علاقے کے چھوٹے ہسپتالوں میں بھیج دیا گیا تھا۔
دھماکوں کی وجہ سے بیروت کے کچھ ہسپتالوں میں بجلی منقطع ہوگئی تھی اور جنریٹرز کو نقصان پہنچا تھا اس وجہ سے انہیں چلانا مشکل تھا۔
لبنان کے شہر ببلاس میں رہنے والے ڈاکٹر سامر چالیتا کا کہنا تھا کہ لوگ بیروت سے ان کے شہرآنے لگے جو کہ وہاں سے 30 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بیروت کے ہسپتالوں میں گنجائش ختم ہونے لگی تھی۔
تاہم مشکل کی گھڑی میں لبنان کو اکیلا نہیں چھوڑا گیا۔
خلیجی ممالک سے امدادی سامان کے ساتھ جہازوں کو بیروت بھیجا گیا۔
یورپی یونین کا کہنا تھا کہ وہ ایک سو فائر فائٹر اور دیگر امدادی سامان بھیجیں گے۔

شیئر: