Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

لبنان کا بحران مزید سنگین، وزیراعظم حسن دیاب مستعفی

حسن دیاب استعفی لبنانی صدر کو پیش کرتے ہوئے (فوٹو: روئٹرز)
لبنان کے وزیراعظم حسن دیاب بیروت دھماکوں کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال اور حکومت مخالف مظاہروں کے پیش نظر کابینہ سمیت مستعفی ہو گئے ہیں۔
حسان دیاب نے حکومت کا استعفی صدر میشال عون کو پیش کیا جو انہوں نے منظور کرلیا۔صدر نے نئی حکومت کی تشکیل تک انہیں کام جاری رکھنے کی ہدایت کی ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق ٹی وی پر خطاب کرتے ہوئے حسن دیاب نے کہا کہ 'آج ہم لوگوں کو اور ان کے مطالبات سن رہے ہیں کہ اس آفت کے جو ذمہ دار ہیں ان کی سرزنش کی جائے۔'
انہوں نے چار اگست کو ہونے والے دھماکوں کا الزام لبنان میں گذشتہ 30 برس سے حکومت کرنے والی ’کرپٹ‘ سیاسی جماعتوں پر عائد کیا۔

 

عرب نیوز کے مطابق بیروت میں چار اگست کو ہونے والے دھماکوں میں کم از کم 163 افراد ہلاک ہو گئے ہیں اور چھ ہزار سے زیادہ زخمی ہوئے ہیں۔
ٹیلی ویژن پر خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ وہ لبنان کی عوام کہ ان مطالبات کی حمایت کرتے ہیں جن کے تحت وہ 'اس جرم' میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی چاہتے ہیں۔
واضح رہے کہ حسن دیاب نے یہ اعلان کابینہ کے اجلاس کے بعد کیا۔
لبنانی حکومت کی کابینہ ایران حامی حزب اللہ گروپ اور اس کے اتحادیوں کی حمایت کے بعد بنی تھی۔
سیاسی ذرائع کے مطابق لبنان کی حکومت سے کئی وزیر مستعفی ہونا چاہتے ہیں۔
حسن دیاب نے سنیچر کو کہا تھا کہ وہ پارلیمانی انتخابات وقت سے پہلے کرنے کی درخواست دیں گے۔
بیروت میں مظاہروں کا سلسلہ دوبارہ شروع ہو گیا تھا اور کچھ مظاہرین پارلیمنٹ کے داخلی راستے پر تعینات سکیورٹی فورسز پر پتھراؤ کرتے رہے جس کے جواب میں سکیورٹی فورسز نے مظاہرین پر آنسو گیس کی شیلنگ کی۔
 لبنانی عوام نے صدر میشال عون سےبھی استعفی طلب کرنے کے لیے مظاہرے کی اپیل کی ہے۔
 بیروت سے ملنے والی رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ پیر کو تیسرے دن بھی مظاہرے جاری ہیں۔ پارلیمنٹ ہاؤس کے اطراف کشیدگی بڑھ رہی ہے۔ مظاہرین کی تعداد میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔

وزیر اطلاعات اور ماحولیات اور دیگر قانون سازوں نے اتوار کو استعفیٰ دے دیا تھا (فوٹو: اے ایف پی)

عرب نیوز کے مطابق بیروت میں ایک انجینیئر جو ہداد نے روئٹرز کو بتایا کہ ’پورے نظام حکومت کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ نئی حکومت کے آنے سے کوئی فرق نہین پڑے گا۔ ہمیں فوری انتخابات کی ضرورت ہے۔‘
وزیر اطلاعات اور ماحولیات اور دیگر قانون سازوں نے اتوار کو استعفیٰ دے دیا تھا جبکہ وزیر انصاف پیر کو مستعفی ہو گئیں۔
فنانس منسٹر غازی وزنی کے قریبی ذرائع کے مطابق وہ بھی مستعفی ہونے والے تھے۔
العربیہ نیٹ کے مطابق اس سے قبل لبنانی ذرائع ابلاغ نے صدر کے پارلیمانی گروپ سے تعلق رکھنے والے رکن پارلیمنٹ کے حوالے سے بتایا تھا کہ اگرحکومت مستعفی نہ ہوئی تو اسے جمعرات کو پارلیمنٹ برطرف کردے گی۔  
قبل ازیں لبنان کے صدر نے کہا تھا کہ دھماکہ خیز مواد کئی برسوں سے بندگاہ پر غیر محفوظ طریقے سے رکھا کیا گیا تھا۔ بعد ازاں انہوں نے کہا کہ ’اس بات کی تحقیق کی جا رہی ہے کہ دھماکے بیرونی مداخلت، غفلت یا ایک حادثے کے نتیجے میں ہوئے۔‘
پیر کو لبنانی فوج نے کہا کہ ملبے سے پانچ مزید لاشیں نکالی گئی ہیں اور اموات کی کُل تعداد 163 ہو گئی ہے اور ریسکیو آپریشن جاری ہے۔

گذشتہ دو روز سے جاری حکومت مخالف مظاہرے بہت بڑے تھے (فوٹو: اے ایف پی)

عرب نیوز نے سرکاری نیوز ایجنسی ’این این اے‘ اور  وزارتی ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا کہ کابینہ نے دھماکوں کی تحقیقات کا معاملہ جوڈیشل کونسل کو بھیجنے کا فیصلہ کیا تھا جس کے فیصلے پر اپیل نہیں کی جا سکتی۔
گذشتہ دو روز سے جاری حکومت مخالف مظاہرے پچھلے سال اکتوبر میں ہونے والے مظاہروں سے بہت بڑے تھے۔
کچھ لبنانی شہریوں کو اس بات پر شک ہے کہ ایسے ملک میں تبدیلی آ سکتی ہے جہاں فرقہ وارانہ ذہن کے سیاستدان 1975 سے 1990 تک مسلط رہے۔
دھماکوں میں تباہ ہو جانے والی الیکٹرسٹی کمپنی کے ملازم انتوئنیتے باکلینی نے کہا کہ ’یہ نظام کام نہیں کرے گا، یہ وہی لوگ ہیں۔ یہ مافیا ہے۔‘

شیئر: