Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

چینل پہلے انصاف کریں گے

آج کل ٹی وی نیوز میں وہ سب ہے جو ایک کامیاب بالی وڈ فلم میں ہونا چاہیے (فوٹو: سوشل میڈیا)
انڈیا کا میڈیا سین یوں تو پہلے ہی بہت دلچسپ تھا لیکن اب انٹرٹینمنٹ کا لیول کچھ ان اونچائیوں کو چھو رہا ہے کہ نیٹ فلکس اور ایمیزون پرائم کی راتوں کی نیند اڑی ہوئی ہوگی۔
لوگ اب یہ سوچنے لگے ہیں کہ نیٹ فلکس جیسی آن ڈیمانڈ سروس پر پیسے برباد کرنے سے کیا فائدہ جب نیوز چینل تقریباً مفت میں اور بغیر ڈیمانڈ کے تفریح کا انتظام کر رہے ہیں۔
آج کل ٹی وی نیوز میں وہ سب ہے جو ایک کامیاب بالی وڈ فلم میں ہونا چاہیے۔
انڈیا میں جب سے رام مندر کی تعمیر کا کام شروع ہوا ہے، زیادہ تر چینلز اس بات پر بحث کر رہے ہیں کہ کیا مندر کا سنگ بنیاد درحقیقت ہندو راشٹر کا سنگ بنیاد تھا اور کیا اس تقریب میں وزیراعظم نریندر مودی کا شرکت کرنا مناسب تھا؟

 

سیاست اور مذہب کو الگ رکھنے کی یہ بحث کچھ ایسی ہے جیسے ٹی وی چینل کے مدیران سے پوچھا جائے کہ کیا انٹرٹینمنٹ اور نیوز کو الگ رکھنا چاہیے؟
ان کا جواب شاید یہ ہوگا کہ اگر نیوز میں مزہ نہ آئے تو دیکھے گا کون؟ ہمارا کام لوگوں تک معلومات پہنچانا ہے اور اس کے لیے جو بھی طریقہ استعمال کرنا پڑے گا ہم کریں گے، کیونکہ یہ ہمیں برداشت نہیں ہے کہ لوگ بے خبر رہ جائیں، دنیا میں ہمار مذاق بن جائے گا کہ انڈیا میں چینلز تو اتنے ہیں کہ ٹی وی میں فٹ نہیں آتے لیکن لوگوں کو خبر کسی بات کی نہیں ہوتی۔
زیادہ تر چینلز کچھ اس انداز میں حکومت کی پالیسیوں کو بیچتے ہیں کہ حکمراں پارٹی اگر جلدی ہی اپنے ترجمانوں کی چھٹی کر دے تو کسی کو حیرت نہیں ہونی چاہیے۔
پارٹی کے رہنما سوچتے ہوں گے کہ ہم چینلز کی بحث میں حصہ لینے جاتے تو ہیں لیکن مزہ نہیں آتا کیونکہ جو کچھ ہمیں کہنا چاہیے اینکر ہم سے پہلے اور ہم سے بہتر انداز میں کہہ چکے ہوتے ہیں۔
بس ہم تو یہ کہہ کر اکتفا کر لیتے ہیں کہ بالکل ٹھیک کہا آپ نے۔۔۔ لیکن جنہوں نے پردہ داری بالکل ہی ختم کر دی ہے ان کی بات کرنے سے کیا فائدہ۔

انڈیا میں رام مندر کا سنگ بنیاد رکھنے پر کئی ٹی وی اینکرز نے خوشی کا اظہار کیا (فوٹو: اے ایف پی)

لیکن ایک دو چینلز ایسے ہیں جو اب بھی غیر جانبداری کا دعویٰ کرتے ہیں، جن کا دعویٰ ہے کہ وہ اپنے ناظرین تک صرف خبر پہنچاتے ہیں شور شرابہ نہیں۔
جب جون اور جولائی میں یہ خبر گرم تھی کہ چینی فوجیں ان علاقوں میں داخل ہوگئی ہیں جن پر انڈیا بھی دعویٰ کرتا ہے، اور چینی فوجیوں کے ساتھ جھڑپوں میں 18 انڈین فوجی ہلاک ہوگئے ہیں، تو کئی دن کے انتظار کے بعد وزیر اعظم نریندر مودی نے ٹی وی پر کہا کہ نہ کوئی ہماری حدود میں گھس آیا ہے اور نہ گھسا تھا۔۔۔
ایک بڑے چینل کے مشہور اینکر نے کہا کہ چینی افواج کی دراندازی پر یہ بحث اب ختم ہوجانی چاہیے کیونکہ خود وزیراعظم نے یہ وضاحت کر دی ہے کہ چینی فوجیوں نے دراندازی نہیں کی۔
اینکر صاحب، ملک کے وزیراعظم کی بات کو ہلکے میں نہیں لینا چاہیے۔ یہ تو ہم بھی مانتے ہیں لیکن آنکھ بند کرکے کسی کی بات پر بھروسہ کر لینا کہاں کی سمجھ داری ہے؟ اگر چینی فوجی انڈین علاقے میں داخل نہیں ہوئے تھے تو پھر لڑائی کہاں اور کیوں ہوئی تھی اور اتنے فوجیوں کی جان کیسے اور کیوں گئی؟

ایک چینل پر تو سشانت سنگھ کا 'فرضی پوسٹ مارٹم' بھی دکھا دیا گیا (فوٹو: اے ایف پی)

جب رام مندر کا سنگ بنیاد رکھا جا رہا تھا تو چینلوں پر جشن کا ماحول تھا۔ جیسے کوئی من مانگی مراد پوری ہوگئی ہو۔ ایک چینل پر اینکرز نے لاؤ بھجن بھی گائے۔ اکیلے نہیں بی جے پی کے ایک ترجمان کے ساتھ مل کر۔
 ایک لبرل چینل کے اینکر نے ٹویٹ کی کہ میں آپ کو بتا نہیں سکتا کہ میں کتنا خوش ہوں۔ بھجن گائے جانے پر نہیں، سنگ بنیاد رکھے جانے پر۔
پھر انہوں نے بابری مسجد کے کیس کی پیروی کرنے والے وکیل سے بات کی اور ان سے پوچھا کہ جب سپریم کورٹ نے مندر کے حق میں فیصلہ سنا دیا ہے تو اب انہیں کیا مسئلہ ہے؟
 وکیل نے جواب دیا کہ آپ نے چینل پر بلایا ہے تو آپ کو بتا رہے ہیں کہ ہم عدالت عظمیٰ کے فیصلے کا احترام کرتے ہیں لیکن اس سے اتفاق نہیں کرتے، ہم مانتے ہیں کہ ہمیں انصاف نہیں ملا اور یہ کہنے میں کیا غلط ہے؟ ہم نے فیصلہ قبول کر لیا ہے، اس لیے اس کے خلاف کوئی احتجاج نہیں کر رہے ہیں لیکن اس فیصلے سے ہم خوش نہیں ہیں۔

انڈیا میں کورونا سے روزانہ بڑھتی ہلاکتوں کو بھی الیکٹرانک میڈیا زیادہ اہمیت نہیں دیتا (فوٹو: اے ایف پی)

آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ یہ بات چیت کیسے آگے بڑھی ہوگی۔ ایک اور چینل پر ایک مسلم رہنما سے پوچھا گیا کہ اس فیصلے پر اپنے اختلافات کو بھلا کر آپ آگے کیوں نہیں بڑھ جاتے؟
 اس سوال کا آسان جواب تو یہ تھا کہ بھائی آپ بڑھنے کہاں دیتے ہیں لیکن جس رہنما سے یہ سوال کیا گیا تھا انہیں بھی خاموشی سے کسی کی بات سننے کی عادت نہیں ہے۔ اس لیے جواب دیا کہ ہم تو آگے بڑھنے کے لیے تیار ہیں بس اتنا بتا دیجیے کہ آگے بڑھ کر کہاں جائیں؟
 پھر ان سے پوچھا گیا کہ آپ سنگ بنیاد کی تقریب میں وزیر اعظم کی شرکت پر تو بہت اعتراض کرتے ہیں لیکن جب پاکستان اور ایران جیسے ملکوں میں مذہب اور سیاست کو ملایا جاتا ہے تو خاموش رہتے ہیں۔
اب کوئی بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا۔ لیکن یہ موصوف بھی کافی حاضر جواب ہیں، بولے کہ پاکستان اور ایران میں کیا ہوتا ہے اس کے لیے وہ جواب دہ کیوں ہیں؟ کیا وہ ان میں سے کسی ملک کے شہری ہیں۔۔۔؟

آسام اور بہار کی ریاستوں میں سیلاب نے لاکھوں افراد کو متاثر کیا ہے جس کی انڈیا چینلز پر کوریج نہیں ہو پا رہی (فوٹو: اے ایف پی)

صحیح جواب۔ بھائی آپ پولیٹیکل سائنس کی کوئی بھی کتاب اٹھا کر دیکھ لیجیے، آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ ہر ملک کا اپنا آئین ہوتا ہے اور انڈیا کا آئین صرف انڈیا میں چلتا ہے، باقی ملکوں میں اگر کوئی غلط کام ہوتا ہے تو اس کے لیے جواب دہ وہاں کے حکمران ہیں کیونکہ وہ آئین کی پاسداری نہیں کر رہے۔
جب تنقید ہوئی تو اینکر نے کہا کہ میرا کام تو سوال پوچھنا ہے۔ بھائی آپ کا کام سوال پوچھنا تو ہے لیکن پیپر سیٹ کرتے وقت مضمون تو یاد رکھیے۔
 ازبکستان، ترکمانستان، افغانستان۔۔۔ میں کب کیا ہوا ہمیں نہیں معلوم اور نہ اس کے لیے ہم ذمہ دار یا جواب دہ ہیں۔
معلوم کیسے ہوتا، آپ کام کی بات بتاتے ہی کہاں ہیں؟
ایک نیوز ویب سائٹ نے ایک اچھا کارٹون شائع کیا ہے۔ ایک شخص سیلاب میں گھرا ہوا ہے اور اس نے اپنے گھر کی چھت پر پناہ لے رکھی ہے۔ کشتی میں سوار ٹی وی کا رپورٹر اس سے پوچھ رہا ہے کہ بالی وڈ کے سٹار سشانت سنگھ راجپوت کی اچانک موت میں انہیں کس کا ہاتھ نظر آتا ہے۔

چینلز کو اس میں دلچسپی نہیں کہ چینی فوجی اب بھی انڈین سرزمین پر خیمہ زن ہیں (فوٹو: اے یف پی)

آج کل زیادہ تر ٹی وی چینلوں کے لیے یہ ہی سب سے بڑی خبر ہے۔ ایک چینل پر تو 'فرضی پوسٹ مارٹم' بھی دکھایا گیا کیونکہ چینل چاہتے ہیں کہ سشانت سنگھ کی موت کے لیے ذمہ دار لوگوں کو پکڑ کر جلد سے جلد سزا دی جائے۔
 پولیس کے پاس اور بہت کام ہیں انہیں کیا زحمت دینی۔ ہاں، یہ ابھی طے نہیں ہے کہ سشانت سنگھ کی افسوس ناک موت کے پیچھے کوئی سازش کارفرما تھی بھی یا نہیں۔ لیکن ان چھوٹی موٹی باریکیوں سے کیا فرق پڑتا ہے۔
 جرم نہیں بھی ہوا تو کیا ہوا، سزا تو ملنی ہی چاہیے۔ اور کہتے ہیں کہ انصاف نہ صرف ملنا چاہیے بلکہ یہ نظر بھی آنا چاہیے کہ انصاف کیا جا رہا ہے، اور ٹی وی چینلوں سے بہتر اس کے لیے اور کیا جگہ ہوسکتی ہے۔
جب چینلوں میں اس کیس کی شنوائی مکمل ہو جائے گی اور وہ سزا جو پہلے سےسوچ لی گئی ہے، اس مجرم کو سنا دی جائے گی جس کا پہلے سے انتخاب کر لیا گیا ہے تو ہوسکتا ہے کہ ان خبروں کی طرف بھی توجہ لوٹے جو خود کو کافی اکیلا محسوس کر رہی ہوں گی۔

سیاست اور مذہب کو الگ رکھنے کی بحث انٹرٹینمنٹ اور نیوز کو الگ رکھنے جیسی ہے (فوٹو: اے ایف پی)

مثال کے طور پر آسام اور بہار میں سیلاب اور اس میں گھرے ہوئے لاکھوں لوگوں کی بے بسی، یا وہ چینی فوجی جو اب بھی انڈین سرزمین پر خیمہ زن ہیں، یا یہ خبر کہ بائیکاٹ کے باوجود انڈیا میں چینی ساخت کے سازوسامان کی فروخت بڑھی ہے کم نہیں ہوئی، یا معیشت کی خستہ حالت جو اب سرد مہری کا شکار نہ ہوئی تو حیرت ہوگی یا پھر وہ وائرس جس سے اب انڈیا میں ہر روز اتنے لوگ مر رہے ہں جتنے پوری کارگل کی لڑائی میں نہیں مرے تھے۔
لیکن ان خبروں میں وہ کشش کہاں جو ایک نوجوان اداکار کی اچانک موت میں ہے۔ چینل پہلے انصاف کریں گے۔

شیئر:

متعلقہ خبریں