Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کراچی میں طوفانی بارش سے تباہی

پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں پیر کی رات سے بارش کا سلسلہ وقفے وقفے سے جاری ہے، مختلف علاقوں میں 100 ملی میٹر سے زائد بارش ریکارڈ کی گئی۔ شدید تباہی ہوئی ہے۔ شہر کی تمام شاہراہیں زیرِآب ہیں جہاں سینکڑوں گاڑیاں پھنس گئی ہیں، بیشتر علاقوں میں پانی گھروں میں داخل ہونے کے بعد رہائشی محصور ہو چکے ہیں۔ 
منگل کی شام وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے صدر اور شارع فیصل کا دورہ کیا۔ وزیراعلیٰ مراد علی شاہ نے کہا کہ صوبے میں رین ایمرجنسی نافذ کر دی، اس حوالے سے چیف سیکریٹری کو نوٹیفکیشن جاری کرنے کی ہدایت کر کے تمام سرکاری ملازمین کی چھٹیاں منسوخ کرنے کے لیے کہا ہے۔ 
 
آرمی چیف جنرل قمرجاوید باجوہ نے کراچی کور کو اندرون سندھ اور کراچی میں متاثرین کی مدد کے لیے امدای سرگرمیاں تیز کرنے کی ہدایت کی ہے۔
 
افواج پاکستان کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کی جانب سے بدھ کو جاری ہونے والے بیان کے مطابق کراچی میں سیلاب متاثرین کی مدد کے لیے ریلیف اور ریسکیو آپریشن جاری ہے۔
'آرمی کے انجینئرز ملیر ندی سے پانی کے بہاؤ کو روکنے کے لیے متاثرہ حصوں کی مرمت کر رہے ہیں۔ ملیر ندی میں پانی کی مقدار کم ہوئی ہے اور پانی قائد آباد سے ملیر ندی میں واپس جانا شروع ہو گیا ہے۔'
آئی ایس پی آر کے مطابق آرمی کی کشتیوں کے ذریعے متاثرہ افراد کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا جا رہا ہے۔
'بارش میں پھنسی ہوئی متاثرہ آبادی کو کھانا بھی فراہم کیا جا رہا ہے۔ ملیر ندی، کوہی گوٹھ اور دُر محمد گوٹھ میں سیلاب سے 200 سے زائد فیملیز گھروں کی چھتوں پر پھنسی ہوئی ہیں۔'
آئی ایس پی آر کے مطابق اس وقت پانی کی زیادہ مقدار کے باعث ان فیملیز کو آرمی کے ہیلی کاپٹرز کے ذریعے ریسکیو کیا جائے گا۔
نیشنل ڈیزاسٹر مینیجمنٹ اتھارٹی (این ڈی یم اے) اور فرنٹیئر ورکس آرگنائزیشن (ایف ڈبلیو او) کی جانب سے نالوں کی صفائی کی گئی جس کے بعد دعویٰ کیا جا رہا تھا کہ اب برساتی پانی کی نکاسی کا نظام درست ہو گیا۔

آئی ایس پی آر کے مطابق بعض فیملیز کو ہیلی کاپٹر کے ذریعے ریسکیو کیا جائے گا (فوٹو: اے ایف پی)

تاہم یہ دعویٰ اور تمام تر انتظامات اگلی ہی بارش کی نذر ہو گئے، اور اب مون سون کے پانچویں اور اب تک کے سب سے طاقتور سپیل میں بارش کے دوران شہر کی صورتحال کو دیکھتے ہوئے لوگوں نے ازراہ مذاق یہ کہنا شروع کردیا ہے کہ اب فوج بلانے سے کام نہیں چلے گا، کراچی کو نیوی کے حوالے کیا جائے۔ 
محکمہ موسمیات کے مطابق صبح 11بجے سے شام 5 بجے تک کراچی میں سب سے زیادہ بارش پی اے ایف فیصل بیس میں 125 ملی میٹر ریکارڈ کی گئی، گلش حدید میں 114ملی میٹر اور صدر میں 83 ملی میٹر بارش ریکارڈ کی گئی۔
منگل کو ایک بیان میں نیشنل ڈیزاسٹر مینیجمنٹ اتھارٹی (این ڈی یم اے) نے سندھ میں بارشوں کے سبب صورتحال کو ہنگامی قرار دیتے ہوئے متاثرہ علاقوں میں امدادی کاروائیوں کا آغاز کرنے کا اعلان کیا ہے۔
کراچی کے علاقے یوسف گوٹھ میں کل سے ہی فوج موجود ہے اور وہاں کے رہائشیوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا جا رہا ہے۔ سرجانی، یوسف گوٹھ اور فور-کے چورنگی کے اطراف کے بیشتر علاقے مکمل طور پر ڈوب چکے ہیں اور ان علاقوں میں آمدورف معطل ہے، صرف فوج کے ٹرک یا کشتیوں کے ذریعے لوگوں کو کھانا فراہم کیا جا رہا ہے اور انہوں وہاں سے نکالا جا رہا ہے۔

زیر آب آنے والے علاقوں سے شہری اپنے گھروں سے سامان نکال کر نقل مکانی کر رہے ہیں۔ فوٹو: اے ایف پی

شادمان ٹاؤن میں پہاڑی کی جانب سے آنے والا برساتی نالہ اوور فلو ہوگیا ہے جس کے باعث پانی گھروں میں داخل ہو رہا ہے۔ شاہراہ نور جہاں، انڈا موڑ، سخی حسن قبرستان کے اطراف کے علاقے اور ناگن چورنگی بھی مکمل طور پر زیرِ آب ہیں۔ اور اس علاقے کے لوگوں کا گلشنِ اقبال اور گلستانِ جوہر سے زمینی رابطہ ممکن نہیں۔
نارتھ ناظم آباد، ناظم آباد اور گولیمار کی تمام سڑکوں پر پانی کھڑا ہے، جبکہ صدر سے نئی کراچی تک جانے والی مرکزی شاہراہ بھی مکمل ڈوب چکی ہے جس کے باعث سینکڑوں گاڑیاں سڑک پر پھنس گئی ہیں اور لوگ اپنے گھروں کو پہنچ نہیں پا رہے۔
ملیر ضلع میں بہنے والے مختلف برساتی نالوں میں اس وقت طغیانی کی صورتحال ہے جبکہ ملیر ندی میں پانی کے تیز بہاؤ میں ایک چھوٹا پل بھی بہہ گیا ہے جو مضافاتی دیہاتوں کو شہر سے منسلک کرتا تھا۔
گلستانِ جوہر کے مختلف بلاکس میں برساتی نالے اوور فلو کر گئے ہیں اور پانی سڑکوں پر آ گیا ہے۔ جوہر چورنگی پر پانی کھڑا ہونے کا باعث چھوٹی گاڑیوں کا گزرنا ناممکن ہے۔ جوہر کے بلاک دو میں مٹی کا تودہ گرنے سے وہاں پارک کی گئی 20 سے زائد گاڑیوں کو نقصان پہنچا۔ بلاک 3 کے رہائشی حاشر راجپوت کے مطابق برساتی نالے سے متصل پل پانی کے تیز بہاؤ سے کٹاؤ کا شکار ہوا ہے اور اس کے ٹوٹنے کا خطرہ ہے۔

شہر کی بڑی شاہراؤں پر بارش کا پانی کھڑے ہونے کے باعث گاڑیوں کو حادثات بھی پیش آئے۔ فوٹو: اردو نیوز

شہر کی مشہور شاہراہ یونیورسٹی روڈ بھی کئی مقامات پر مکمل ڈوب چکی ہے اور کئی کئی فٹ پانی جمع ہے۔ امیر صدیقی نے یونیورسٹی روڈ کا احوال بتایا کہ نیپا اور صفورا گوٹھ سے آمدورفت ممکن نہیں اور یہاں موجود لوگ محصور ہیں اور ہر جانب سڑکوں کے ڈوبنے کی وجہ سے کہیں آ جا نہیں سکتے۔ گلشنِ اقبال کے علاقے ضیاء کالونی میں برساتی نالے میں دو بچے بہہ گئے جن کی تلاش جاری ہے۔
ضلع وسطی کے علاقے عائشہ منزل، یاسین آباد، واٹر پمپ، پیپلز چورنگی اور متصل تمام سڑکیں مکمل طور پر ڈوب چکی ہیں اور ٹریفک کی آمد و رفت معطل ہے۔
شہریوں کی بڑی تعداد اس وقت کاروباری مراکز میں محصور ہو کر رہ گئی ہے۔ شارع فیصل، آئی آئی چندریگر روڈ، ڈیفنس اور پی ای سی ایچ ایس کے علاقوں میں قائم دفاتر میں لوگ اپنے گھروں کو واپس نہیں لوٹ سکتے کیوں کہ ان علاقوں میں بے تین فٹ تک پانی کھڑا ہے اور شارع فیصل پر کئی کئی فٹ پانی جمع ہونے کے باعث  گاڑیوں اور موٹر سائیکل کی روانی ممکن نہیں۔

کراچی میں رواں مون سون کے دوران ریکارڈ بارشیں ہوئی ہیں۔ فوٹو: اے ایف پی

دانیال نقوی اور اویس خان شارع فیصل پر ہمدرد یونیورسٹی کے قریب دفتر میں موجود ہیں، ان کا کہنا ہے کہ نیچے اس قدر پانی اکھٹا ہے کہ بلڈنگ سے نکلنا ہی ناممکن ہے۔
برساتی پانی کا گھروں میں داخل ہونا نشیبی اور زیادہ آبادی والے علاقوں تک محدود نہیں، اب پوش علاقوں میں بھی پانی گھروں میں داخل ہو رہا ہے۔ پی ای سی ایچ ایس، کراچی ایڈمن سوسائٹی، ڈیفنس اور متصل علاقوں میں کئی فٹ پانی جمع ہے جو گھروں میں داخل ہو رہا ہے۔
شہر کے کاروباری مرکز صدر کی تمام سڑکیں اس وقت زیر آب آ چکی ہیں۔ زینب مارکیٹ، اردو بازار، ایم اے جناح روڈ، بولٹن مارکیٹ، الیکٹرانکس مارکیٹ، سندھ اسمبلی، سندھ ہائی کورٹ سے متصل تمام علاقوں میں پانی جمع ہونے کے باعث شہریوں کی گاڑیاں خراب اور ڈوب چکی ہیں۔ مارکیٹوں میں پانی بھر جانے سے تاجروں کا لاکھوں کروڑوں روپے کا نقصان ہونے کا خدشہ ہے۔ 

بارش کا پانی داخل ہونے سے گھروں میں قیمتی سامان بھی ضائع ہوا ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

سوشل میڈیا پر مختلف لوگوں کی جانب سے اپنے اپنے علاقوں کا احوال بتاتے ہوئے اپیل کی جا رہی ہے کہ شہری سفر کے لیے گھروں سے نکلنے سے گریز کریں اور جو کوئی جہاں موجود ہے وہیں رہے۔ شہر میں بجلی کا بھی بحران ہے اور 70 فیصد سے زائد علاقوں میں بجلی کی فراہمی معطل ہے۔ صدر، گارڈن، پاپوش، گولیمار، گلشنِ اقبال، گلستان جوہر، نارتھ کراچی، ناظم آباد، ملیر اور دیگر کئی علاقوں میں منگل کی صبح سے ہی بجلی منقطع ہے۔ 
اس وقت پورا کراچی اربن فلڈنگ کا شکار ہے اور شہر کی تمام سڑکیں ندی نالوں کا منظر پیش کر رہی ہیں۔
کراچی کے تھانوں میں بھی بارش کا پانی بھر گیا ہے۔پولیس اہلکارقیمتی سامان اور ریکارڈ بچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
حکام کا کہنا ہے کہ پولیس سٹیشنوں میں پانی بھرنے سے پولیس کا کام بھی متاثر ہورہا ہے۔

شیئر:

متعلقہ خبریں