Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

دریائے راوی اختتامی سفر کی جانب گامزن

راوی کا ذکر ہندو مت کی ویدوں میں بھی ملتا ہے لیکن اس وقت اس کا نام راوی نہیں تھا (فوٹو: اے ایف پی)
انسانوں اور دریاؤں کا رشتہ بہت پرانا ہے۔ شاید اتنا پرانا جتنا انسان خود ہے۔ انسانی تہذیب کی کہانی دریاؤں کے کناروں سے شروع ہوئی اور ابھی تک بھی اسی ارتقائی عمل سے گزر رہی ہے۔
البتہ دنیا کے بدلتے جغرافیائیوں نے کئی جگہوں پر دریاؤں اور انسانوں کے اس تہذیبی رشتے کو بھی کاٹ کے رکھ دیا ہے۔ اب اپنے دریائے راوی کو ہی لیجیے۔
برصغیر کے قدیم ترین دریاؤں میں سے ہے لیکن 1960 کے سندھ طاس معاہدے کے بعد پاکستان میں راوی بہنا بھول گیا۔
راوی کا ذکر ہندو مت کی ویدوں میں بھی ملتا ہے لیکن اس وقت اس کا نام راوی نہیں تھا بلکہ یہ اراوتی اور پروشنی کے نام سے ریگ ویدا میں جانا جاتا تھا۔
لاہور شہر کی بنیاد بھی اسی راوی کنارے پر پڑی۔ اس دریا نے کیا کیا نہیں دیکھا جین مت، ہندو مت، اسلامی بادشاہتیں اور پھر گورا راج۔ سب سے زیادہ پذیرائی اس دریا کو مغلوں کے دور میں ملی۔ جب راوی لاہور شہر کے شمال میں واقع شاہی قلعے کے عقب میں بہتا تھا۔
اس سوال کا جواب تلاش کرنا قدرے مشکل ہے کہ راوی کنارے بسنے والے انسانوں نے اپنے دریا کے ساتھ کچھ اچھا سلوک نہیں کیا یا پھر ارتقا اور وقت کے بے رحم تھپیڑوں سے یہی قسمت کشید ہونا تھی۔
وہ راوی جو ہزاروں سال کی تاریخ کا امین ہے یہ محض دریا نہیں تھا یہ ایک رومانس تھا۔ اس رومانس کو ایک مغل بادشاہ نے شہر کے داخلی پاٹ کے قریب بارہ دری بنا کر اپنے تخیل کو حقیقیت کا روپ عطا کیا۔ تو دوسری طرف گورنمنٹ کالج کے طلبا و اساتذہ نے اپنی علمی، ادبی لہروں کو جب ایک سالانہ میگزین میں پرویا تو اسے بھی راوی کا نام دیا۔

اب راوی کشمیر سے نہیں بہتا اب لاہور واسی اپنے تمام گندے نالوں کا خراج راوی کے نام کرتے ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

بات یہیں ختم نہیں ہوتی پنجابی ادب میں لکھے گئے نغموں میں بھی راوی کی روانی رکتی نہیں تھی۔ سجاد علی کا گایا ہوا مشہور زمانہ گانا ’جے ایتھوں کدی راوی لنگھ جاوے۔۔ حیاتی پنج آبی بن جاوے۔‘ (اگر یہاں سے راوی گزر جائے۔۔ تو زندگی پانچ دریاؤں جیسی زرخیز ہو جائے) یا پھر نورجہاں کا گایا ہوا ’وگدے نیں اکھیاں اچوں راوی تے چناب‘ (آنکھوں سے راوی اور چناب بہتے ہیں) یہ سب راوی کا سحر تھا۔
دریاؤں کے سحر ہوا ہی کرتے ہیں لیکن دکھ تو یہ کہ نئی نسل نہیں کبھی راوی کو دریا کی صورت نہیں دیکھا نہ وہ اس کے سحر میں اس طرح مبتلا ہو پائیں گے۔
راوی کے بارے میں پرانے لاہور اور پنجابیوں کا یہ گمان بھی رہا ہے کہ راوی میں جتنا پانی بھی امڈ آئے راوی لاہور شہر میں داتا علی ہجویری کے مزار کا ہمیشہ ادب کرتا ہے اور اپنے جوش اور لہروں کو کبھی اتنا بے ادب نہیں ہونے دیتا کہ داتا صاحب کے مزار کی سیڑھیوں سے آن ٹکرائے۔
سندھ کے طاس میں مشرقی اور بہتا دریا اب اپنے پیٹ میں کتنا پانی بھرے پھرتا ہے یہ اب سرے سے سوال ہی نہیں رہا۔ کیونکہ اب راوی کشمیر سے نہیں بہتا اب لاہور واسی اپنے تمام گندے نالوں کا خراج راوی کے نام کرتے ہیں۔
اب کامران کی بارہ دری میں کسی رومانوی صبح کو سورج کی وہ کرنیں نہیں پڑتیں جو مست لہروں کی پیشانی چوم کے نظارہ کرنے والوں کو زندہ رہنے کے درس دیتی تھیں اور نہ ہی اب وہاں شام اپنے اداس بھیگے آسمان کو ساتھ لیے اترتی ہے۔

پنجاب حکومت نے اس بار بھی برسات میں کم درجے کے سیلاب کی پیشین گوئی کی ہے (فوٹو: اے ایف پی)

اب تو بارہ دری تک جانے کے لئے گندے بدبو دار جوہڑ سے ہوتے ہوئے ڈیزل انجن سے چلتی فضا کو شور سے آلودہ کرتی کشتی پر سوار ہوں تو یوں آپ بارہ دری پہنچ جاتے ہیں۔
افسانہ تو یہ ہے کہ پیرس، لندن، نیویارک اور لاہور کے پہلو میں بالترتیب سین، ٹیمز، ہیڈسن اور راوی ایک طرح کے دریا بہتے تھے لیکن اب راوی اور لاہور کا ناطہ ٹوٹ چکا ہے۔ جبکہ دنیا کے دوسرے عظیم شہروں کے دریا ابھی بھی اپنے باسیوں کے ساتھ ہزاروں سال کی رفاقت نبھا رہے ہیں۔
ہمارے سامنے صنعتی ترقی اور انڈسٹریل فضلہ بہرحال ایک حل طلب مسئلہ ہے لیکن راوی میں پانی کی کمی کو جس بے اعتنائی سے لاہور کے باسیوں نے لیا وہ بھی اپنی مثال آپ ہے۔
راوی کے ظرف کو ماپا جائے تو آج بھی جواب آتا ہے کہ راوی آج بھی اپنے فطری ہاٹ میں ہزاروں لاکھوں کیوسک پانی سمیٹ کر پنجند تک لاسکتا اور تھوڑے پانی کے ساتھ بھی خوبصورتی برقرار رکھی جا سکتی ہے۔

پنجابی ادب میں راوی کا ذکر مختلف شاعروں نے کیا ہے (فوٹو: اے ایف پی)

لیکن اب تو دریا کے کناروں، پونڈ ایریاز اور ہاٹ کے اندر تک بے ہنگم بستیاں بسا دی گئی ہیں اور مویشی باڑے لگا دئیے گئے ہیں اور ایسی ایسی دیواریں کھڑی کر دی گئی ہیں کہ دریا کو اپنے وراثتی حصے سے بھی بے دخل کر دیا گیا ہے۔
ایسے میں جب آسمان سے پانی برسے اور پڑوسی ملک سے اضافی پانی اچانک چھوڑ دیا جائے تو راوی کہاں سر ٹکرائے گا؟ خبر ہے کہ پنجاب حکومت نے اس بار بھی برسات میں کم درجے کے سیلاب کی پیشین گوئی کی ہے جس کی پیشگی تیاریاں شروع کر دی گئی ہیں۔ پانی تو شاید گزر جائے گا لیکن راوی اپنے اختتامی سفر کی طرف رواں رہے گا۔

شیئر: