Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

انڈیا میں 118 چینی ایپس پر پابندی کا اعلان

انڈیا پہلے سے ہی 59  ایپس بشمول مقبول ویڈیو شیئرنگ ایپ ٹک ٹاک پر پابندی لگا چکا ہے (فوٹو:ٹوئٹر)
انڈیا نے آن لائن ویڈیو گیم ’پب جی‘ سمیت مزید 118 چینی ایپس پر پابندی لگانے کا اعلان کیا ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق چین اور انڈیا کے درمیان سرحدوں پر حالیہ کشیدگی کے بعد انڈیا نے چین کے ساتھ معاشی رقابت تیز کر دی ہے۔
انڈیا کی انفارمیشن ٹیکنالوجی کی وزارت کا کہنا ہے کہ مذکورہ ایپس ایسی سرگرمیوں کو پروان چڑھا رہے تھے جو کہ انڈیا کی خودمختاری، سالمیت، دفاع اور امن عامہ کے خلاف ہیں۔
پابندی کا سامنا کرنے والے ایپس میں انٹرنیٹ سروس مہیا کرنے والی چین کی اہم کمپنی  ٹینسنٹ بھی شامل ہے۔
حالیہ دنوں میں انڈیا اور چین کے درمیان سرحد پر جھڑپیں ہوئی ہے۔ 
رواں سال جون کے مہینے میں 20 انڈین فوجی لداح میں چینی افواج کے ساتھ دو بدو لڑائی میں مارے گئے تھے۔ 
ان جھڑپوں کے بعد انڈیا پہلے سے ہی 59  ایپس بشمول مقبول ویڈیو شیئرنگ ایپ ٹک ٹاک پر پابندی لگا چکا ہے۔
پب جی موبائل فون ایپ کے انڈیا میں لاکھوں نواجوان صارفین ہیں۔ پابندی کا سامنا کرنے والے ایپس میں کھیل، آن لائن پیمنٹ سروسز، ڈیٹنگ ایپس اور سیلفیز کو ایڈٹ کرنے کے لیے سافٹ ویئر بھی شامل ہیں۔
گو کہ پب جی کو ایک ساؤتھ کورین کمپنی نے بنایا ہے تاہم اس کا موبائل ورژن ٹینسنٹ نے بنایا ہے۔ وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی نے ایپ پر صارفین کا ڈیٹا چرانے کا الزام لگایا ہے۔
انڈیا میں سوشل میڈیا صارفین مودی سرکار کے اس فیصلے پر ملے جلے ردعمل کا اظہار کر رہے ہیں۔
کچھ صارفین کا کہنا ہے کہ انڈیا میں چینی مصنوعات کے ساتھ ساتھ ان موبائل ایپلی کیشنز کا بائیکاٹ بھی ضروری ہے۔ جبکہ کچھ صارفین کا خیال ہے کہ موبائل ایپلی کیشنز پر پاپبندی عائد کرنا 'مسئلے کا حل نہیں۔'

ارنب گوسوامی کے نام سے ٹوئٹر ہینڈل نے میم شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ 'انڈیا کے لیے کچھ بھی۔'

امکار ڈوبے نامی ٹوئٹر صارف نے لکھا کہ 'مودی حکومت کی جانب سے ایک اور ڈیجیٹل سٹرائیک۔ جب بھی وہ کچھ برا کرتے ہیں تو ہم مزید ایپلی کیشنز پر پابندی لگا کر انہیں سزا دیتے ہیں۔'

ہنی سری وستو نامی صارف نے لکھا کہ پب جی پر پابندی لگ گئی کیونکہ حکومت ہماری توجہ جی ڈی پی سے ہٹانا چاہتی ہے جو تباہ کن انداز سے کم ہوتا جا رہا ہے اور اس ویڈیو پر طلبہ کی ناپسندیدگی کی وجہ سے ایسا کیا جا رہا ہے کیونکہ آپ نے 30 لاکھ خاندان کی زندگیاں ایک ایسے امتحان کی وجہ سے خطرے میں ڈالیں جو ایک دو ماہ تک معطل کیا جا سکتا تھا۔'

پب جی بین کیے جانے پر کچھ صارفین والدین کے تاثرات کو یمز کے ذریعے بیان کرتے نظر آئے۔ ڈاکٹر ودیکا نامی صارف نے میم شیئر کی جس میں انڈین والدین کو پب جی بین ہونے پر خوش ہوتے دیکھا جا سکتا ہے۔'

ڈونٹ گیٹ آفینڈڈ کے نام سے ٹوئٹر ہینڈل نے ایک میم شیئر کی جس میں کارٹوں کریکٹرز کو ہنستے ہوئے دکھایا گیا ہے، انہوں نے لکھا کہ ٹک ٹاکرز حکومت کی طرف سے بین کیے جانی والی ایپلی کیشنز میں پب جی کا نام دیکھ کر'۔

شیئر: